[]
اسلام آباد: خیبر پختونخوا کے ضلاع باجوڑ میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ورکرز کنونشن میں ہونے والے دھماکے کے نتیجے میں کم از کم 40 افراد جاں بحق اور 50 سے زیادہ زخمی ہو گئے۔
باجوڑ کے ڈسٹرکٹ ایمرجنسی افسر سعد خان نے بتایا کہ دھماکے میں اب تک 40 افراد جاں بحق اور 50 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ دھماکے میں جے یو آئی تحصیل خار کے امیر مولانا ضیااللہ جان بھی جاں بحق ہو گئے جبکہ زخمیوں کو تیمرگرہ اور پشاور منتقل کرنا شروع کر دیا گیا ہے۔
جس وقت دھماکا ہوا اس وقت جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ورکرز کی بڑی تعداد کنونشن میں موجود تھی جس کی وجہ سے بڑی تعداد میں اموات کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ دھماکے کی آواز علاقے میں دور دور تک سنی گئی لیکن ابھی تک دھماکے کی نوعیت کے بارے میں کوئی چیز واضح نہیں ہو سکی کہ یہ خودکش تھا یا دھماکا خیز مواد کسی چیز میں نصب کیا گیا تھا۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما حافظ حمداللہ نے نجی چینل ’جیو نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس جو اطلاع ہے اس کے مطابق ہمارے 10 سے 12 ورکرز شہید ہو چکے ہیں اور کئی درجن زخمی ہیں۔ انہوں نے دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس کنونشن میں مجھے بھی جانا تھا لیکن میں ذاتی مصروفیت کی وجہ سے وہاں نہیں جا سکا۔
حافظ حمداللہ نے کہا کہ میں حملہ کرنے والوں کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ اگر وہ اسے جہاد کہتے ہیں تو یہ جہاد نہیں ہے، یہ فساد اور کھلم کھلا دہشت گردی ہے، یہ انسانیت پر حملہ ہے، پورے باجوڑ اور ریاست پر حملہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں ریاست اور ریاستی اداروں سے مطالبہ کرتا ہوں کہ اس دھماکے کی تحقیقات ہونی چاہیے، یہ پہلا واقعہ نہیں بلکہ بار بار ہوتا رہا ہے، اس سے پہلے بھی باجوڑ میں ہمارے مختلف سطح کے عہدیداران کو شہید کیا گیا جس پر ہم نے پارلیمنٹ میں بھی آواز اْٹھائی لیکن آج تک کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔
امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ حملے کا مقصد ملک میں افراتفری کی صورتحال پیدا کرنا ہے اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ تمام سیاسی قائدین اور شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنائے۔سراج الحق نے بم دھماکے کی فوری اور مکمل تحقیقات کروا کر مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ بھی کیا۔