[]
سال 2024 کے ابتدائی دو مہینوں میں اردو شاعری کو دو بڑے صدمات سے دو چار ہونا پڑا۔ اردو شاعری کو یہ صدمات منور رانا اور فاروق نازکی کی وفات کے سبب برداشت کرنا پڑے۔ منور رانا لمبی بیماری کے بعد 14 جنوری کو دار بقا کی جانب کوچ کر گئے اور اردو اور کشمیری زبان کے منفرد لہجے کے شاعر فاروق نازکی 6 فروری کو داغ مفارقت دے گئے۔ اردو شاعری کو مہینوں کے حساب سے تو یہ صدمات دو مہینوں میں پہونچے لیکن اگر دنوں کا حساب لگایا جائے تو محض 23 روز میں محبان اردو کو دو عظیم شاعروں سے محروم ہونا پڑا۔ یہ دونوں شاعر ساہتیہ اکادمی انعام یافتہ تھے یہ بات الگ ہے کہ منور رانا نے احتجاج میں یہ انعام واپس کر دیا تھا۔ فاروق نازکی نے لمبی بیماری کے بعد 83 برس کی عمر میں وفات پائی۔ فاروق نازکی شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ماہر براڈ کاسٹر، کئی مقبول سیریلوں کے اسکرپٹ رائٹر، اناؤنسر، ترجمہ نگار اور صحافی تھے۔ کشمیر دوردرشن اور آل انڈیا ریڈیو سرینگر کے ڈائریکٹر کے طور پر انہوں نے ملی ٹنسی کے عروج کے دور میں بڑی جرت مندی اور ہمت کے ساتھ فرائض انجام دئے۔فاروق نازکی کی مختلف میدانوں میں خدمات کا تفصیل سے ذکر کرنے سے پہلے انکے تعلیمی سفر اور خاندانی پس منظر سے واقف ہونا بھی ضروری ہے۔
فاروق نازکی کا مکمل نام میر محمد فاروق نازکی تھا۔ وہ 1940 میں 14 فروری کو ضلع بانڈی پورہ کے Maddar میں ایک علمی اور ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انکے والد غلام رسول نازکی اپنے دور کے کہنہ مشق اور صاحب مجموعہ کلام شاعر تھے۔ وہ اردو کشمیری اور فارسی میں شاعری کرتے تھے۔ انکے اردو کلام کے تین مجموعے، ”دیدہ تر”، ”چراغ راہ ” اور ”متاع فقیر’ اور کشمیری شاعری کے چار مجموعے شائع ہو چکے تھے۔ وہ کشمیر کے پہلے ریڈیو اسٹیشن کے پہلے پروگرام آفیسر تھے۔ یہ ریڈیو اسٹیشن مہاراجہ ہری سنگھ نے قائم کیا تھا۔ فاروق نازکی کے والد کشمیر کے وہ پہلے شاعر تھے جنکا کلام کشمیر سے باہر شائع ہونے والے معتبر جریدوں میں شائع ہوتا تھا۔ جوش ملیح آبادی کی ادارت میں شائع ہونے والے ادبی جریدے ‘کلیم’ میں بھی انکا کلام شائع ہوتا تھا۔ اس دور کے معروف اردو ادیب اور ناقد جعفر علی خاں اثر کا انکی شاعری کے بارے میں کہنا تھا کہ ‘نازکی کی شاعری اغلاط سے پاک ہوتی ہے’۔ فاروق نازکی کے ادبی ذوق کو گھر کے ادبی اور شعری ماحول نے جلا بخشی۔ انہوں نے بچپن سے اپنے گھر میں کشمیری اور اردو کے ممتاز ادیبوں اور شاعروں کی صحبتوں کا فیض اٹھایا۔ فاروق نازکی کی ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقے میں ہی ہوئی۔ والد غلام رسول نازکی کے سرینگر منتقل ہونے کے بعد فاروق نازکی کی نے اعلیٰ تعلیم سرینگر میں ہی حاصل کی۔ انہوں نے اردو میں ایم اے کیا تھا۔ لکھنے کا شوق انہیں لڑکپن سے ہی تھا۔ آٹھویں جماعت میں تھے تو انکا ایک مضمون ڈاکٹر عابد حسین کی سرپرستی میں شائع ہونے والے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ‘میرا پرچہ’ نامی رسالے میں شائع ہوا تھا۔ 20 برس کی عمر میں ریاست کے محنت کش طبقے کے مسائل اجاگر کرنے والے اخبار ‘مزدور’ کے ایڈیٹر بن گئے تھے۔
فاروق نازکی کی شعری اور نثری سرگرمیاں ساتھ ساتھ چل رہی تھیں۔ کشمیر سے شائع ہونے والے روز نامہ ‘خدمت’ اور دہلی سے شائع ہونے والے رسالوں ”آشیانہ”،”مستانہ جوگی” اور ہفتہ وار ”چترا” میں انکے مضامین اور کلام شائع ہوتے تھے۔ انکے مضامین کشمیر اور کشمیریت کے موضوع پر ہی مرکوز ہوتے تھے۔ ابتدا میں فاروق نازکی سری نگر ریڈیو سے جزوقتی اناؤنسر کی حیثیت سے بھی وابستہ رہے۔ 1986 سے1997 تک وہ دوردرشن اور آل انڈیا ریڈیو سرینگر کے ڈائریکٹر رہے۔ وہ دور کشمیر میں ملیٹنسی کی شدت کا تھا۔ اس دور میں ملیٹنٹوں کے خلاف آواز بلند کرنا موت کو دعوت دینے جیسا تھا۔ انہوں نے بڑی دلیری اور ہمت کے ساتھ نہ صرف اپنے فرائض ادا کئے بلکہ سری نگر دوردرسشن کو نیا روپ رنگ اور آہنگ بھی دیا۔آڈیو وزول ٹکنالاجی کی باریکیاں سیکھنے کے لئے انہیں 1972 میں جرمنی بھیجا گیا تھا۔ فاروق نازکی نے ہی 1980 کے اوائل میں ‘شب رنگ’ کے ذریعے دوردرشن پر ’سوپ اوپیرا‘ کو متعارف کرایا۔ فاروق نازکی نے درجنوں مقبول ڈرامے اور سیریلس تحریر اور پروڈیوز کئے۔”اب یہاں کوئہی نہیں آئےگا”، ‘کھوکھلا پیڑ’، ‘ہری ڈالیاں’، ‘یہاں کوئی نہیں ہے’، ‘سب رس’، ‘طوفان اور بھنور’ جیسے ڈراموں نے بے انتہا مقبولیت حاصل کی۔ ‘سودے بودے’، ‘آب سیماب’، ‘الاؤ’ اور ‘توتمے’ جیسے سیریلس ہر گھر میں دیکھے جاتے تھے۔ ریڈیو کے لئے Zoone Dub انکا معرکت الارا ڈرامہ تھا۔
جہاں تک انکی شاعری کا تعلق ہے انہوں نے غزلیں اور نظمیں خوب کہیں۔ ‘مہ جبیں’ کے عنوان سے انہوں نے کشمیری میں ایک مثنوی بھی نظم کی۔ جو بہت مقبنول ہوئی اور اسکے کئی ایڈیشن شائع ہوئے۔ انکی اردو شاعری کے تین مجموعے ” لفظ لفظ نوحہ” ، ”آخری خواب سے پہلے” اور ”یہ دھنواں سا کہاں سے اٹھتا ہے”شائع ہو چکے ہیں۔انہوں نے اردو فلم ‘نازو’کے نغمے بھی لکھے۔
انکی کشمیری شاعری کی تین کتابیں منظر عام پر آئی ہیں۔ Nar Hutron Kazal Wannas ( کاجل کے بن میں آگ) فاروق نازکی کو اسی کتاب پر 1995میں ساہتیہ اکادمی نے ایوارڈ سے سرفراز کیا تھا۔کشمیری شاعری کی انکی دوسری کتاب ‘مہ جبیں’ اور تیسری کتاب Sat Baran ہے۔ ”لفظ لفظ نوحہ” کو ریاستی کلچرل اکیڈمی نے ایوارڈ سے نوازہ تھا۔
انکی شاعری روایت سے تھوڑا ہٹ کر ہے۔ انکی شاعری محض خیالات اور تصورات تک محدود نہیں ہے بلکہ اطراف رونما ہونے والے واقعات پر رد عمل کا اظہار بھی ہے۔کشمیر میں تشدد اور نوجوانوں کی گمراہی سے تشویش اور تباہی اور بربادی کا نوحہ بھی انکی شاعری میں جا بجا نظر آتا ہے۔
سنگ پرستوں کی بستی میں شیشہ گروں کی خیر نہیں ہے
جن کی آنکھیں نور سے خالی ان کے دل ہیں آہن آہن
۔۔۔۔۔۔
شدت پر ہے ہرے بھرے پتوں کی پیاس
صحرا صحرا خون سمندر لکھنا ہے
۔۔۔۔۔۔
چار سو ظلمت کے پہرے دار ہیں
رحمتوں کی ہم پہ بارش تو کرو
۔۔۔۔۔۔
عجیب رنگ سا چہروں پہ بے کسی کا ہے
چلو سنبھل کے یہ عالم روا روی کا ہے
۔۔۔۔۔
کشمیر کے بنیادی مسائل کی جانب حکومت کی عدم توجہی پر انکا یہ شعر بہت کچھ کہتا ہے۔
کبھی نہ بات زمانے نے دل لگا کے سنی
یہی تو خاص سبب میری بے دلی کا ہے
انکی شاعری کشمیر کے ملے جلے کلچر کی نمائندگی کرتی ہے۔وہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی، پر امن بقائے باہم اور بھائی چارے کے زبردست حامی تھے۔ انہوں نے کشمیر میں خونریزی پرخون کے آنسو بھی بہائےلیکن کبھی امید کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔کبھی حالات سے مایوس نہیں ہوئے۔ روشن مستقبل کی ایک کرن انکی شاعری میں نمایاں رہتی ہے۔
پھر پہاڑوں سے اتر کر آئیں گے
راہ بھٹکے نوجواں گھر آئیں گے
جن کی خاطر ہیں گھروں کے در کھلے
صبح کے بن کر پیمبر آئیں گے
پھر تلاطم خیز ہے دریائے خوں
ہم تری تقدیر بن کر آئیں گے
ہاتھیوں کی مد پہ ہے کعبہ مرا
کب ابابیلوں کے لشکر آئیں گے
انہوں نے آزاد اور معرا نظمیں بھی کہیں ۔انکی نظموں کا لہجہ غزلوں سے قدرے مختلف ہے۔انکی نظم ”اور میں چپ رہا” کشمیر کی بربادی کا نوحہ ہے۔
میرے ہاتھوں سے میری چتا بن گئی
میرے کاندھوں پہ میرا جنازہ اٹھا
نوک مژگان سے قرطاس ایام پر
میرے خوں سے مرا نام لکھا گیا
اور میں چپ رہا
میرے بازار کوچے مرے بام و در
میری ناداریوں سے سجائے گئے
میرے افکار میری متاع ہنر
میری محرومیوں سے بسائے گئے
اور میں چپ رہا
میری تقدیر کا جو بھی خاکہ بنا
پیلے موسم کے پتوں پہ لکھا گیا
میری تصویر مجھ سے چھپائی گئی
مجھ کو نادیدہ خوابوں میں دیکھا گیا
اور میں چپ رہا
میرے الفاظ معنی کی تلوار سے
سر بریدہ ہوئے گنگناتے رہے
میرے نغمے گداؤں میں بانٹے گئے
برگزیدہ ہوئے گنگناتے رہے
اور میں چپ رہا
مجھ سے میری تمنا کے گل چھین کر
زرد موسم نے جشن بہاراں کیا
برف میرے نشیمن پہ آ کے گری
دھوپ نکلی تو اس کو ہراساں کیا
اور میں چپ رہا
میرے سر سبز جنگل اجاڑے گئے
میری جھیلوں میں اجگر بسائے گئے
کوہ ماراں کی تقدیس لوٹی گئی
بے حسی کے مقابر سجائے گئے
اور میں چپ رہا
فاروق نازکی کو قریب سے جاننے والے انہیں قلندر کہتے تھے۔ اس قلندر صفت اہل قلم نے بھرپور ادبی زندگی جی اور زندگی کی راہوں پر ایسے نقش قدم چھوڑے جو آنے والی نسلوں کے لئے رہنما ثابت ہونگے۔
وہی میں ہوں وہی خالی مکاں ہے
مرے کمرے میں پورا آسماں ہے
دیار خواب و چشم دل فگاراں
جزیرہ نیند کا کیوں درمیاں ہے
سکوت مرگ طاری ہر شجر پر
یہ کیسا موسم تیغ و سناں ہے
چمن افسردہ گل مرجھا گئے ہیں
خزاں کی زد پہ سارا گلستاں ہے
بھلا دی آپ نے بھی وہ کہانی
محبت جس کے دم سے جاوداں ہے
……….
پھر پہاڑوں سے اتر کر آئیں گے
راہ بھٹکے نوجواں گھر آئیں گے
جن کی خاطر ہیں گھروں کے در کھلے
صبح کے بن کر پیمبر آئیں گے
پھر تلاطم خیز ہے دریائے خوں
ہم تری تقدیر بن کر آئیں گے
دوستو مت سیکھئے سچ بولنا
سر پہ ہر جانب سے پتھر آئیں گے
ہاتھیوں کی مد پہ ہے کعبہ مرا
کب ابابیلوں کے لشکر آئیں گے