چندرا بابو نائیڈو، کرپشن مقدمات کے جال میں پھنس گئے

[]

امراوتی: گزشتہ سال ستمبر میں کرپشن کے ایک کیس میں آندھرا پردیش کے سابق چیف منسٹر این چندرا بابو نائیڈو کی گرفتاری اور کرائم انوسٹی گیشن ڈپارٹمنٹ (سی آئی ڈی) کی جانب سے نائیڈو کے خلاف مزید 4 مقدمات کے اندراج نے لوک سبھا اور اسمبلی کے ایک ساتھ منعقد شدنی انتخابات سے قبل ریاست میں سیاسی ماحول کا منظر نامہ بدل کر رکھ دیا ہے۔

اس طرح حکمراں جماعت وائی ایس آر کانگریس پارٹی کو پہلی بار ایک بڑا موقع ہاتھ آیا ہے۔ وہ سی آئی ڈی کے مقدمات کے ذریعہ نائیڈو کو نشانہ بناسکتی ہے۔ کیونکہ چندرا بابو نائیڈو، اکثر، چیف منسٹر جگن موہن ریڈی کو یہ کہتے ہوئے نشانہ بناتے رہے ہیں کہ سی بی آئی اور ای ڈی نے جگن کے خلاف کئی مقدمات درج کئے ہیں اور یہ تمام مقدمات زیر التواء ہیں۔

اب، چیف منسٹر جگن اپنی تقاریر میں ٹی ڈی پی سربراہ چندرا بابو نائیڈو کو ملزم نمبر ایک کہہ کر پکار رہے ہیں۔ قبل ازیں نائیڈو، جگن پر تنقید کیا کرتے تھے۔اسکل ڈیولپمنٹ کارپوریشن کیس میں نائیڈو کو گرفتار کیا گیا تھا اور نائیڈو کے خلاف دیگر مقدمات کے اندراج کے بعد بظاہر وائی ایس آر کانگریس پارٹی کی جانب سے یہ پیام دینے کی کوشش کی گئی تھی کہ نائیڈو بھی قانون اور قانونی اداروں سے بالاتر نہیں ہیں۔

سیاسی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ جگن جو سال2012-13 کے دوران16ماہ جیل میں قید تھے، بھی یہ چاہتے تھے کہ ان کے سیاسی حریف بھی جیل کی صعوبتیں برداشت کریں۔ نائیڈو کو 52دنوں تک جیل میں قید کرتے ہوئے جگن اپنے اس مقصد میں کامیاب بھی رہے ہیں۔

جگن کا کہنا ہے کہ وائی ایس آر سی پی، اب تلگودیشم پارٹی کو ہدف ملامت بناتے ہوئے یہ کہہ سکتی ہے کہ ٹی ڈی پی سربراہ بھی جیل جاچکا ہے۔ 73سالہ نائیڈو کو ان کے4دہائیوں پر مشتمل سیاسی کیرئیر میں کوئی بھی بدعنوانی کے معاملہ میں گرفتار نہیں کیا۔ وہ، اس بارے میں جگن کو چالینج دیا کرتے تھے اور یہ دعویٰ کیا کرتے تھے کہ جگن کے والد وسابق چیف منسٹر راج شیکھر ریڈی بھی ان کے خلاف بدعنوانیوں کو ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

اسکل ڈیولپمنٹ اسکام کیس میں نائیڈو کو سخت دھکہ اس وقت پہونچا جبکہ انہیں جلد ضمانت نہیں ملی۔ ٹی ڈی پی، اپنے قائد کی گرفتاری کو سیاسی انتقام قرار دیتی رہی۔ وہ، پارٹی سربراہ کی ناسازی صحت اور جیل میں ان کی جانب کو خطرہ بتا کر عوام کی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کررہی تھی۔ نائیڈو کے افراد خاندان جن میں ان کی اہلیہ بھونیشوری، بہو برہمنی جو خاتون صنعت کار ہیں کے ساتھ ٹی ڈی پی کے جنرل سکریٹری این لوکیش، پارٹی کارکنوں کے ساتھ سڑکوں پر اتر آئے اور حکومت کی کارروائی کے خلاف احتجاج کرنے لگے۔

دوسری طرف وائی ایس آر سی پی حکومت نے باپ اور بیٹے (نائیڈو اور لوکیش) کے خلاف نئے مقدمات درج کرتے ہوئے، خاندان پر دباؤ بڑھانے کی کوشش کی۔ گرفتاری کے 2دنوں بعد سی آئی ڈی نے نائیڈو کے خلاف امراوتی انر رنگ روڈ کیس میں پی ٹی وارنٹ داخل کیا۔ چند دنوں بعد سی آئی ڈی نے فائبر نیٹ اسکام میں نائیڈو کے خلاف ایک اور پی ٹی وارنٹ داخل کی۔30 / اکتوبر2023 میں نائیڈؤ کے خلاف ریاست میں شراب کی کمپنیوں کے قیام کی غیر مجاز طور پر اجازت دینے کا کیس درج کیا گیا۔

ابتدا میں آندھرا پردیش ہائی کورٹ نے 4ہفتوں کیلئے نائیڈو کو عبوری ضمانت منظور کی جس کے بعد سابق چیف منسٹر نائیڈو جنہیں کرپشن کے الزامات میں ماخوذ کیا گیا ہے 52دنوں کے بعد جیل سے باہر آئے۔ چندرا بابو نائیڈو نے 40سالہ طویل سیاسی کیرئیر میں، میں نے کبھی کوئی غلط کام کیا ہے اور نہ ہی میں نے کسی کو غلط کام کرنے کی اجازت دی ہے۔ تاہم سی آئی ڈی نے 2نومبر کو چندرا بابو نائیڈو کے خلاف مزید2مقدامات درج کئے ہیں یہ مقدمات فری سانڈ (ریت) پالیسی سے متعلق ہیں۔ گذشتہ سال20 نومبر کو ہائی کورٹ نے نائیڈو کو باقاعدہ ضمانت دے دی۔

رواں سال10جنوری کو چندرا بابو نائیڈؤ کو اس وقت بڑی راحت ملی جبکہ اے پی ہائی کورٹ نے انہیں دیگر3مقدمات میں قبل از گرفتاری کی ضمانت دے دی۔ گذشتہ سال ستمبر میں نائیڈؤ کو اس وقت بڑا جھٹکہ لگا جب ہائی کورٹ نے ان کے خلاف درج ایف آئی آر کو کالعدم قرار دینے کی سابق چیف منسٹر کی عرضی کو خارج کردیا۔ نائیڈؤ نے ہائی کورٹ کے فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چالینج کیا مگر سپریم کورٹ نے گزشتہ ہفتہ سیکشن17A پر منقسم فیصلہ سنایا۔



ہمیں فالو کریں


Google News

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *