غاصب اسرائیل دھرنوں کی لپیٹ میں؛ ہم آتش فشاں کی طرف بڑھ رہے ہیں، صہیونی صحافی

[]

مہر خبررساں ایجنسی نے فلسطین الیوم کے حوالے سے عبرانی اخبار یدیعوت احرانوت کے رپورٹر تسور شیزاو کے ایک مضمون سے خبر دی ہے کہ جس میں انہوں نے کہا ہے کہ نیتن یاہو کی کابینہ کے اقدامات کی وجہ سے مقبوضہ علاقوں میں بحرانوں کا جمع ہونا انتہائی خطرناک ہے اور مقبوضہ علاقوں کی صورتحال پھٹتے ہوئے آتش فشاں کی طرف بڑھنے جیسی ہے۔

شیزاؤ نے مزید لکھا کہ گذشتہ منگل کو بین گورین ہوائی اڈے پر زبردست مظاہرے کے دوران، میرا دوست خصوصی پولیس یونٹ کے دو ارکان سے بات کر رہا تھا۔ انہوں نے اسے بتایا کہ جوان پولیس فورس چھوڑنے جا رہے ہیں۔

انہوں نے مزید لکھا کہ ہم بحران پیدا ہوتے دیکھ رہے ہیں، پارلیمنٹ میں نیتن یاہو کی کابینہ کی طرف سے منظور کیے گئے ہر مایوس کن قانون کے ساتھ صورت حال پہلے سے زیادہ سنگین ہو جاتی ہے۔

دوسری طرف الجزیرہ نے رپورٹ کیا کہ اسرائیلی پولیس نے عدالتی اصلاحات کے حوالے سے نیتن یاہو کی کابینہ کے متنازع بل کے خلاف مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے تشدد کا سہارا لیا۔

رپورٹ کے مطابق صیہونی حکومت کے پولیس اہلکار پارلیمنٹ کی عمارت کے اطراف سے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے تشدد کا استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسرائیلی پولیس نے وزیر اقتصادیات کے گھر کے سامنے سے درجنوں مظاہرین کو گرفتار بھی کر لیا ہے۔

عبرانی ذرائع ابلاغ نے بھی گذشتہ روز خبر دی ہے کہ صیہونی حکومت کے 200 سابق سفیروں نے وزیر اعظم نیتن یاہو کو لکھے گئے خط میں عدالتی اصلاحات کے منصوبے کی وجہ سے تل ابیب کی بین الاقوامی حیثیت کو پہنچنے والے نقصان پر اپنی تشویش کا اظہار کیا اور اس منصوبے کو فوری طور پر منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا۔

واضح رہے کہ مقبوضہ علاقوں میں 29 ہفتوں سے زائد عرصے سے بینجمن نیتن یاہو کی کابینہ کے عدالتی اصلاحات کے متنازعہ بل کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہروں کی لہر دیکھی جا رہی ہے جب کہ نیتن یاہو کابینہ  اس بل کو کنیسٹ میں پیش کرنے اور اس کی منظوری دینے کے اپنے فیصلے سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے۔

خیال رہے کہ عدالتی اصلاحات کی منظوری کے ذریعے نیتن یاہو کا مقصد اپنا سیاسی کیریئر جاری رکھنا ہے اور وہ اپنے اور کابینہ کے دیگر وزراء پر عائد کرپشن کے متعدد الزامات اور برطرفی کے مطالبے کو دبانا چاہتے ہیں۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *