[]
مغل اعظم کی شوٹنگ کے دوران مدھوبالا اور ان کے درمیان بات چیت تک بند ہوچکی تھی، وہ ایک دوسرے کو دیکھ کر منہ پھیر لیا کرتے تھے۔
ہندی سینما کے لازوال فنکار دلیپ کمار 11 دسمبر 1922 کو پشاور کے قصہ خوانی بازار میں پھلوں کے تاجر غلام سرور خان کے ہاں یوسف خان کے نام سے پیدا ہوئے۔دلیپ کمار کے بقول ان کا تعلق ہندکو بولنے والی اعوان برادری سے ہے۔ چونکہ ان کے والد کے پھلوں کے باغات ناسک (مہاراشٹر) کے قریب تھے اس لیے ان کی ابتدائی تعلیم کا آغاز ناسک کے قریب دیو لالی کے برنس اسکول سے ہوا۔غالباً 1932میں ان کے خاندان نے ہمیشہ کے لئے ممبئی کو اپنا ٹھکانہ بنالیا۔انجمن اسلام اسکول سے میٹرک اور خالصہ کالج سے بی اے کرنے کے بعد انہیں پونا کے ملٹری کینٹین میں مینیجر کی نوکری مل گئی۔
وہ 1942کا پرآشوب سال تھا جب پورے ہندوستان میں آزادی اور تقسیم کے نعرے گونج رہے تھے، نوجوان یوسف خان اپنے والد کے ایک دوست کے ہمراہ شوٹنگ دیکھنے بمبئے ٹاکیز پہنچے۔
ہندی سینما کی خاتون اول اور بامبے ٹاکیز کی شریک سربراہ دیویکا رانی کو مردم شناس مانا جاتا ہے اور اس مردم شناس کی نظر شوٹنگ دیکھنے والے پشاوری نوجوان پر پڑی۔انہوں نے نوجوان سے پوچھا، کیا آپ کو اردو آتی ہے؟ ہاں میں جواب سن کر خاتون نے دوسرا سوال داغا، اداکاری کروگے؟ نوجوان نے جو جواب دیا سو دیا مگر اس جواب کی گونج آج تک سنائی دیتی ہے اور نہ جانے کب تک سنائی دیتی رہے گی۔جب یوسف خان سے دلیپ کمار بنتے فنکار کی بات ہوگی تب تب دیویکارانی کا ذکر بھی آئے گا۔
انہوں نے بامبے ٹاکیز کی ملازمت اختیار کرکے تین فلموں کے معاہدے کیے۔اس زمانے کے فلمی چلن کے مطابق ان کے سامنے تین فلمی نام رکھے گئے واسو دیو، جہانگیر خان اور دلیپ کمار۔انہوں نے جہانگیر خان کا نام پسند کیا مگر معروف مصنف بھگوتی چرن ورما نے دلیپ کمار پر اصرار کیا بعد ازاں اس اصرار کے پلڑے میں دیویکا رانی نے بھی اپنا وزن ڈال دیا، بالآخر یوسف خان دلیپ کمار بن گئے۔
1944 میں امیہ چکرورتی کی ہدایت میں ان کی پہلی فلم “جواربھاٹا” ریلیز کی گئی۔یہ ایک میوزیکل ڈرامہ ہے جس میں دلیپ کمار کی اداکاری انتہائی بھونڈی اور بکواس ہے۔اس کے بعد 1945ءاور 1947کو بامبے ٹاکیز کے بینر تلے ان کی دو فلمیں بالترتیب پرتیما اور ملن آئیں۔یہ فلمیں بھی عوام کو متوجہ کرنے میں ناکام رہیں البتہ ملن میں اس دلیپ کمار کی جھلک ضرور ملتی ہے جس نے بعد میں ہندی سینما کو ایک نئی پہچان دی۔
سال 1947 کے ہنگامہ خیز سال میں جہاں “ملن” نے ناکامی کا منہ دیکھا وہاں شوکت حسین رضوی کی ہدایت میں ان کی چوتھی فلم “جگنو” نے دھماکہ خیز انٹری کی۔اس فلم کی ہیروئن شوکت رضوی کی شریک حیات اور بعد میں ملکہ ترنم کا خطاب پانے والی نورجہاں تھیں۔فلم کی کامیابی سمیٹتے سمیٹتے شوکت رضوی اور نورجہاں نوزائیدہ پاکستان ہجرت کرگئے تاہم وہ جاتے جاتے ہندی سینما کو وہ تحفہ دے گئے جس نے جگنو جیسی ہی روشنی پائی۔ سال 1948ءکو آزاد ہندوستان کی فضاؤں میں ان کی پانچ فلمیں سینما کی زینت بنیں مگر کامیابی صرف “شہید” کو ملی، گو کہ شہید بھی کچھ خاص نہیں ہے مگر جدوجہد آزادی کے مناظر اور خوبصورت گیتوں کے باعث جذبہ قوم پرستی سے سرشار عوام نے اسے خوب پذیرائی بخشی۔دلیپ کمار انڈسٹری میں جگہ بنا چکے تھے مگر ان کی حیثیت تاحال دوسرے درجے کی تھی۔
سال 1949ءمیں ان کی فلم “شبنم” نے بھی باکس آفس کو اپنے نام کیا۔کئی سالوں بعد اداکار منوج کمار نے ایک انٹرویو میں کہا مجھ میں اداکار بننے کا شوق جگنو اور شبنم میں دلیپ کمار کی متاثر کن اداکاری دیکھنے کے بعد پیدا ہوا، بلاشبہ شبنم ایک اچھی فلم ہے مگر وہ فلم جس نے 1949ءکے دلیپ کمار کو دوسرے درجے سے اٹھا کر اول درجے کے اداکاروں کی صف میں شامل کیا وہ شبنم نہیں بلکہ لیجنڈ ہدایت کار محبوب خان کی میوزیکل ٹریجڈی ڈرامہ “انداز” ہے۔راج کپور، نرگس اور دلیپ کمار کی اس ٹرائینگل لو اسٹوری کو ہر سطح پر سراہا گیا۔ناکام محبت کے جنازے پر دلیپ کمار کے سوگوار انداز نے فلم بینوں کی روح تک کو چھولیا اس کے بعد انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔
سال 1954ءسے لے کر 1958ءتک “جوگن”، “آرزو”، “بابل” “ترانہ”، “داغ”، “دیدار”، “دیوداس” “مدھومتی” اور “یہودی” جیسی ناقابل فراموش فلموں میں انہوں نے المیہ اداکاری کے وہ جوہر دکھائے کہ انہیں “ٹریجڈی کنگ” کے نام سے پکارا جانے لگا۔موخر الذکر تین فلموں کے ہدایت کار بمل رائے ہیں اگر یہ کہا جائے تو شاید غلط نہ ہو کہ بمل رائے کی تخلیقات کو اگر بلراج ساہنی کے بعد کسی نے بھرپور انداز میں پیش کیا ہے تو وہ دلیپ کمار ہی ہیں۔
مسلسل المیہ اداکاری کرنے کے باعث ان کی نفسیاتی کیفیت بھی بدلنے لگی، ان پر اداسی اور غم کے بادل چھانے لگے۔البتہ اس زمانے میں ان کی اداسی کا ایک اور سبب 1957ءکی فلم “نیا دور” کی شوٹنگ کے دوران پیش آنے والے واقعات بھی ہوسکتے ہیں جنہوں نے شام غم کی سیاہی کو مزید گہرا کیا۔نیادور کی ہیروئن مدھوبالا اور دلیپ کمار کے درمیان محبت کا رشتہ استوار ہوچکا تھا جس میں مدھوبالا کے والد عطااللہ کی ناپسندیدگی کی تلخی بھی شامل تھی۔نیادور کی آدھی شوٹنگ کے بعد ہدایت کار بی آر چوپڑا نے باقی شوٹنگ بھوپال میں کرنے کا اعلان کیا جسے عطاللہ نے یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ یہ دلیپ کمار کی سازش ہے تاکہ وہ بھوپال میں میری بھولی بیٹی سے کھل کر جھوٹی محبت کا ناٹک کرسکے، بات کافی آگے بڑھ گئی، معاملہ کورٹ کچہری تک پہنچ گیا ناچار مدھو بالا کی جگہ وجینتی مالا کو سائن کردیا گیا۔اس واقعے اور اس سے منسلک دیگر تلخیوں نے ان کی رومانی زندگی کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا ۔اپنے نفسیاتی معالج کے مشورے پر انہوں نے اداس کرداروں سے کنارہ کشی اختیار کرلی مگر محبت!!!۔
گوکہ وہ 1952ءکو ہدایت کار محبوب خان کی فلم “آن” میں ایک زبردست ٹیکنی کلر کردار کے ذریعے اپنی صلاحیتوں کا اظہار کر چکے تھے لیکن اس کے باوجود بعض نقادوں کا ماننا تھا کہ وہ دوسری قسم کے کرداروں کو ادا نہیں کرپائیں گے مگر 1960کی “کوہ نور” نے تمام اندازے نہ صرف غلط ثابت کردیے بلکہ اس فلم کے ایک گیت “مدھ بن میں رادھیکا ناچے رے” کو فلمانے سے قبل انہوں نے اداکاری میں حقیقت کا عنصر پیدا کرنے کے لئے کڑی محنت کرکے ستار بجانا بھی سیکھا اور اس کوشش میں ان کی انگلیاں تک زخمی ہوگئیں۔قبل ازیں نیادور کے لئے بھی اپنے کردار میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لئے انہوں نے باقاعدہ تانگہ چلانے کی تربیت حاصل کی۔
فلم کوہ نور کامیاب رہی اور ان کی اداکاری کو فلم فیئر ایوارڈ سے بھی نوازا گیا مگر ان کا “کوہ نور” چرایا جا چکا تھا 1960 ء میں ہی ان کی دوسری فلم “مغل اعظم” بھی بلاک بسٹر ثابت ہوئی مگر وہ محبت کی بازی ہار چکے تھے، ان کی انارکلی بھی صاحب عالم کی طرح ان سے چھن چکی تھی۔مغل اعظم کی شوٹنگ کے دوران مدھوبالا اور ان کے درمیان بات چیت تک بند ہوچکی تھی، وہ ایک دوسرے کو دیکھ کر منہ پھیر لیا کرتے تھے۔ فلم کے رومانی مناظر دیکھ کر لگتا نہیں ہے کہ ان دونوں کے درمیان نفرت کا رشتہ ہے ایک طرح سے یہ ان دونوں فنکاروں کے فن کی بلندی کی دلیل بھی ہے۔کئی سالوں بعد دلیپ کمار نے اعتراف کیا کہ وہ ناراضگی کے باوجود مدھوبالا سے متاثر تھے ایک اداکارہ کے طور پر بھی اور ایک عورت کے طور پر بھی۔ان کے بقول جب وہ آخری بار مدھو بالا سے ملنے گئے تو کمزور اور شدید بیمار مدھو بالا نے پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ مجھے اپنا شہزادہ کہہ کر مخاطب کیا اور سائرہ بانو سے شادی کی مبارکباد دی۔وہ کہتے ہیں یہ سن کر میرے آنسو چھلک پڑے۔
وہ الفت کے تقاضے تو نبھا نہ سکے مگر انہوں نے اپنے فن پر آنچ نہ آنے دی 1961 میں انہوں نے اپنے ذاتی سرمائے سے فلم “گنگا جمنا” بنائی جس کی ہدایت نیتن بوس نے کی۔اس فلم میں انہوں نے وہ کر دکھایا جس کی توقع کسی کو نہ تھی، بقول راج کپور، میں اس روانی سے دلیپ کو پچھم کی زبان بولتے دیکھ کر حیران رہ گیا۔امیتابھ بچن کہتے ہیں کہ وہ زمانہ طالب علمی میں اس فلم کو روز الہ آباد کے سینما میں دیکھنے جایا کرتے تھے۔دلیپ کمار کی بہترین فلموں کی فہرست لمبی ہے مگر گنگا جمنا ایک ایسی فلم ہے جسے میں ان کی تمام فلموں پر حاوی تصور کرتا ہوں۔
تین سال کے طویل عرصے بعد 1964 کو ان کی فلم “لیڈر” آئی جو اپنے بہترین گیتوں کے باوجود ناکام ثابت ہوئی۔ 1966 میں وحیدہ رحمان کے ساتھ رشید کاردار کی ہدایت میں “دل دیا درد لیا” آئی جو ایملی برونٹس کے ناول ووتھرینگ ہائٹس سے ماخوز ہے۔ فلم کامیاب رہی لیکن یہ فلم ان کی سابقہ فلموں کے ہم پلہ ہرگز نہیں ہے تاہم 1967 ءکی ڈبل رول پر مبنی فلم “رام اور شیام” کو ان کی بہترین فلموں میں شمار کیا جاسکتا ہے۔اس فلم میں ان کے مقابل وحیدہ رحمان اور صدی کی خوبصورت ترین اداکارہ کا اعزاز پانے والی ممتاز تھیں۔رام اور شیام کو نہ صرف وسیع پیمانے پر پسند کیا گیا بلکہ متعدد دفعہ اس کی نقل بھی کی گئی جیسے ہیمامالنی کی “سیتا اور گیتا”، سری دیوی کی “چالباز” اور انیل کپور کی “کشن کنہیا”۔ رام اور شیام کی ریلیز سے قبل 1966میں وہ پڑوسن فلم سے شہرت پانے والی حسین ساحرہ “سائرہ بانو” کے ساتھ شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔یہ شادی ان کی حیات تک قائم ہے لیکن بدقسمتی سے یہ خوبصورت فلمی جوڑا محمدعلی زیبا کی طرح اولاد کے سکھ سے محروم ہے۔
سال 1968میں “سنگھرش” اور “آدمی” کی کامیابی کے بعد ان کی فلمیں یکے بعد دیگرے ناکام ہوتی گئیں۔ 1976 میں “بیراگ” کی ناکامی کے بعد وہ فلموں سے دور ہوگئے۔ 1980 میں ان کے سب سے بڑے پرستار، ہدایت کار و اداکار منوج کمار نے انہیں اپنی فلم “کرانتی” کی آفر کی جسے انہوں نے قبول کرلیا۔فلم 1981 کو ریلیز کے ساتھ ہی ہٹ ہوگئی۔یہ فلم بھی “شہید” کی طرح کچھ خاص نہیں ہے مگر آزادی کی جدوجہد کے مناظر اور خوبصورت گیتوں کے باعث کامیابی کے تخت پر جا بیٹھی۔کرانتی کے باعث دلیپ کمار ایک بار پھر فلمی دنیا میں اسی آن اور شان کے ساتھ آگئے جو ان کا خاصہ تھا۔
80 کی دہائی میں یوں تو ان کی بہت سی فلمیں آئیں ان میں 1982میں رمیش سپی کی ہدایت میں “شکتی” جس میں انہوں نے ایک قانون پسند پولیس آفیسر اور ایک اصول پسند باپ کا کردار ادا کیا جبکہ ان کے مقابل امیتابھ بچن تھے جنہوں نے ایک انارکسٹ بیٹے کا کردار نبھایا۔فلم میں گوکہ دونوں کی اداکاری اعلی رہی مگر میں سمجھتا ہوں بعض سیکوئنس میں انہوں نے امیتابھ بچن کو آؤٹ کلاس کردیا ہے۔اس فلم کے بعد راجکمار نے کہا، ہندی سینما میں صرف دو کمار ہیں ایک میں دوسرا دلیپ کمار۔دوسری 1984 میں یش چوپڑہ کی ہدایت میں بننے والی فلم “مشعل”۔اس فلم کے ایک سین نے تو کلاسیک 10کا درجہ حاصل کرلیا جب برسات کی رات، سنسان سڑک پر، اپنی مرتی بیوی کی زندگی بچانے کے لئے دلیپ کمار مدد کی فریاد کرتے ہیں۔اس سین میں ان کا انداز، ڈائیلاگ ڈلیوری، جسم کی حرکت الغرض ہر چیز شاندار ہے جبکہ تیسری فلم 1984 میں وطن دوستی پر مبنی “کرما” ہے جس کے ہدایت کار سبھاش گئی ہیں۔اس فلم میں بھی ان کا فن سر چڑھ کر بولتا ہے۔کہا جاتا ہے اس فلم کی شوٹنگ کے دوران دلیپ کمار اور ان کے ساتھی اداکار نصیرالدین شاہ کے درمیان تعلقات کشیدہ ہوگئے تھے جو تاحال معمول پر نہ آسکے ۔
سال 1990 کی دہائی میں ان کی صرف تین فلمیں آئیں۔ان میں سے بھی صرف 1991 کی “سوداگر” دیکھنے کے قابل ہے جس میں ان کے مقابل ہندی سینما کے دوسرے کمار “راج کمار” تھے۔ان دونوں کی دوستی اور دشمنی سے پیدا ہونے والے ڈائیلاگ ہی اس فلم کی جان ہیں ۔ان کی آخری فلم 1998 کی ” قلعہ” ثابت ہوئی اور افسوس کہ یہ بھی کوئی خاص تاثر چھوڑنے میں مکمل طور پر ناکام رہی لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، دلیپ کمارکو جو مقام ملا وہ ان سے کوئی نہیں چھین سکتا اپنے چوّن سالہ کیریئر میں انہوں نے سینما پر ایک بادشاہ کی طرح راج کیا، سینکڑوں ایوارڈ سمیٹے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
;