[]
ذکی طارق بارہ بنکوی
سعادت گنج، بارہ بنکی
تڑپ، چاہت، لگن،دُھن اور جزبہ ہم بھی رکھتے ہیں
ستارے توڑ لانے کی تمنا ہم بھی رکھتے ہیں
ترے الطاف کی امید مولا ہم بھی رکھتے ہیں
کہ پیشانی پہ نورِ نقشِ سجدہ ہم بھی رکھتے ہیں
تمہاری نر گسی آنکھوں کو دیکھا تو ہوُا ظاہر
کہ دل ہی دل میں شغلِ جام ومینا ہم بھی رکھتے ہیں
ہوۓ تم غاصبِ آب اور ہم ہیں پیاس کے عامر
بہ قدرِمشترک دریا سے رِشتہ ہم بھی رکھتے ہیں
فقط اپنے تبسم سے ذرا سا حوصلہ دیدو
تمہیں اک بار چھُونے کی تمنا ہم بھی رکھتے ہیں
غموں کی دھوپ اگر چہ ہے بہت ہی سخت و جاں لیوا
تو سر پہ ساٸباں ماں کی دعا کا ہم بھی رکھتے ہیں
فقط تم ہی نہیں گلشن کے تنہا وارث ومالک
چمن کے ایک ایک پتے پہ دعویٰ ہم بھی رکھتے ہیں
ہمیں بھی اے خدا اک چاہنے والا عطا کر دے
کسی سے پیار کرنے کا ارادہ ہم بھی رکھتے ہیں