[]
تحریر۔فرمان مظاہری بارہ بنکوی
یہ تصویریں دوران حج حاجیوں کے طواف کرنے کی ہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں پر حجاج ندامت و شرمندگی ، عاجزی و انکساری ،اور صبرو استقلال کے ساتھ اللہ کے حضور اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں گویا کہ وہ مجرم ہوں۔ انہیں اپنے گناہوں کی بخشش چاہئے۔ ان کو دنیا اور آخرت میں رب کی رضا چاہئے۔ دنیا میں امن و سکون چاہئے۔ انہیں ہر بیمار شفایاب چاہئے ، ہرمقروض قرض سے نجات پایا ہوا چاہئے ، تمام پریشانیوں کا حل چاہئے ، مسلمانوں کی سرخروئی چاہئے ، دینِ اسلام کی سربلندی چاہئے ، ظالم سے نجات چاہئے ، ظلم سے پناہ چاہئے ، گمراہوں کو ہدایت چاہئے ، بے سہاروں کو سہارا چاہئے ، شیاطین کے شر سے حفاظت چاہئے ، میدان محشر میں نبی کی شفاعت چاہئے ، اللہ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت چاہئے۔
حج تو اللہ کی مخصوص عبادت اور محبت کا ایسا مظہر ہے کہ اُس نے خود لامکان ہوتے ہوئے زمان و مکان کے اسیربندوں کے لیے مکہ کی غیرآباد وادی میں معمولی سادہ سی عمارت کو “اپنا گھر” کہہ کر (جسے بیت اللہ کہتے ہیں) اپنے برگزیدہ نبی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعے عاشقوں کے جذبۂ محبت کی تسکین کا سامان کیا۔ جو وفائے محبت کے ہر امتحان میں سرخروئی کی کامل ترین تصویر تھا۔ دورانِ حج احرام و لبیک کی پکار دراصل اپنا سب کچھ لاکر محبوب کے قدموں میں ڈھیرکردینا ہے۔ چہرے کا رُخ ، دل کی محبوبیت ، سوچ و فکر کا مرکز کہیں بھی کوئی دوسرا شریک نہ ہو۔ ہرسعی و جہد کا مطلوب صرف اللہ ہی کا بن جانا ہے۔ محبوب کی مرضی کی خاطر ہر لمحہ نہ صرف آمادہ بلکہ محبت کی انتہاؤں کے ساتھ مستعد رہنا ، وفائے محبت کے ہر امتحان جیسے آگ میں کود پڑنا ، باپ سے قطعِ تعلق ، ترکِ وطن ، صحراؤں ، بیابانوں کی سرگردانی ، محبوب بیوی اور شیرخوار بچے کو غیرآباد صحراء میں چھوڑ دینا اور پھر اشارہ ملتے ہی بڑھاپے کی اُمید اکلوتے نوجوان بیٹے کی قربانی کے لیے گلے پر چُھری رکھ دینا۔ اِن تصوراتی حقیقتوں پر دلی کیفیات کے ساتھ لبیک لبیک کی صدائیں محبت کی راہوں میں آسانیاں پیدا کرتی ہیں۔
حج کی پوری عبادت دو ہی چیزوں کا مرکب ہے۔ ایک دل کی لگن کا محور اللہ کی رضا اور دوسرے اُس کی رضا کے حصول کے لیے بھاگ دوڑ ، اُس کی مغفرت ، اُس کی جنت کی طرف سبقت کرنا ، یعنی حج اوّل تا آخرمسلسل حرکت و سعی اور قربانی کا درس ہے۔ ایمان کی حقیقت کا لطف اُسی کے حصے میں آتا ہے جو سب سے بڑھ کر اللہ سے محبت کرے۔ اور اُس کا والہانہ اظہار کرے۔ پتھر اور گارے سے بنے “کعبہ” کو اللہ نے اپنی جانب منسوب کرلیا۔ اُس کے محبوب بندے اُس کے گرد چکر لگاتے ہیں۔ حجرِ اسود کا بوسہ یا استلام گویا اللہ کو اپنا سب کچھ سپرد کرکے تجدیدِ وفا کا اظہار ہے۔ دو چھوٹی پہاڑیوں صفا اور مروہ کی قسمت دیکھئے کہ ایک کمزور و بے بس عورت کا اپنے پیاسے بچے کی خاطر دوڑنا اللہ کو اتنا پسند آیا کہ اسے “سعی” کا نام دیکر رہتی دنیا تک ان کی سنت کو جاری کردیا۔ پھر وہی رب اِس محبت بھری دور بھاگ کے بدلے میں پتھریلی زمین سے شیرخوار بچے کی ایڑیوں تلے سے تاقیامت چشمہ جاری کردیتا ہے۔ “سعی” کی عبادت میں اللہ کی حکمت یہ ہے کہ اُس کو صرف زبان کی تسبیحات و کلمات ہی مطلوب نہیں بلکہ اُس کی راہ میں مشقت و قربانی بھی مطلوب ہے۔
ہرشخص کا غرور یہاں خاک میں ملا ہوا ہوتا ہے۔ ہر ایک کی وضع داری اور حیثیت اس در پر بے حیثیث ہو جاتی ہے۔ ہر ایک اپنے رب کریم کے حضور فریادی بن کر اپنی پریشانیاں پیش کرتا ہے۔ یہاں نہ کوئی بڑا اور نہ کوئی چھوٹا ، نہ کوئی امیر نہ کوئی غریب ، نہ حسب و نسب کی فوقیت اور نہ ہی خاندانی جاہ وحشم کی حیثیت ، بس ایک ہی طرح کا لباس اور ایک ہی ترانہ۔ *”لبیک اللہم لبیک”* اے اللہ میں حاضر ہوں ، اے اللہ میں حاضر ہوں۔ یہاں ہر ایک اللہ کے دربار میں اپنی حاضری لگوانے اور اپنی موجودگی درج کروانے کے لئے کوشاں رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سبھی حاجیوں کی تمام عبادات اور ان کے حج کو قبول فرمائے۔ اور دنیا بھر کے تمام مسلمانوں کو یہاں پہونچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یَا رَبَّ العَِالمین