[]
نئی دہلی: بہرائچ ٹاون میں ایک اسکول کی نویں جماعت کے ہندی پرچہ سوالات میں ”ہندوستانی مسلم دہشت گردی“ پر ایک سوال کی وجہ سے تنازعہ پیدا ہوگیا ہے۔ مقامی مسلمانوں نے احتجاج کیا اور اسکول کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا۔
بتایا جاتا ہے کہ اسکول نے معافی مانگ لی ہے اور کہا ہے کہ لفظ مسلم غلطی سے استعمال کیا گیا تھا۔ اسکول انتظامیہ نے اُس ہندی ٹیچر کو بھی برطرف کردیا ہے جس نے یہ پرچہ سوالات تیار کیا تھا اور امتحان منسوخ کردیا گیا ہے۔ یہ سوال دہشت گردی پر ہندی میں ایک مشق کا حصہ تھا۔
اخباری اطلاع کے مطابق ایک پیراگراف میں کہا گیا تھا کہ یہ ایک آئیڈیالوجی کا حصہ ہے جس میں ہندوستانی مسلم دہشت گردی، لشکر طیبہ، القاعدہ، طالبان اور اسلامی سیاست کی مختلف تنظمیں شامل ہیں۔
اس پیراگراف میں یہ بھی کہا گیا کہ حکومت ہند کو جموں وکشمیر کے مسئلہ پر پاکستان کے ساتھ بات چیت کے علاوہ جنگ کے لئے بھی تیار رہنا چاہئے۔ پیر (2 ستمبر) کو سپریم کورٹ نے مظفرنگر کے معاملہ سے نمٹنے کے طریقہ پر حکومت اترپردیش اور پولیس پر کڑی تنقید کی تھی۔
اس شہر کے ایک اسکول میں ٹیچر نے ایک مسلم طالب علم کو بار بار تھپڑ مارنے کیلئے دوسرے طلبہ کی حوصلہ افزائی کی تھی۔ اس واقعہ کا ایک ویڈیو وائرل ہوگیا تھا جس میں طالب علم کو روتے ہوئے دیکھا جاسکتا تھا۔
سپریم کورٹ نے ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر اور اس میں فرقہ وارانہ نفرت کے الزامات کا حوالہ نہ دیئے جانے پر پولیس کی سرزنش کرتے ہوئے کہا تھا کہ کسی سینئر آئی پی ایس عہدیدار کو اس معاملہ کی تحقیقات کرنی چاہئے۔
جسٹس اوکا نے عدالت میں کہا تھا کہ جس انداز میں ایف آئی آر درج کی گئی ہے ہم اس پر سنگین اعتراضات کرتے ہیں۔
لڑکے کے والد نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ مذہب کی وجہ سے لڑکے کو مارپیٹ کی گئی تھی لیکن ایف آئی آر میں اس کا تذکرہ نہیں ہے۔ دوسرے ویڈیو کی ٹرانسکرپٹ کہا ہے۔ جس انداز میں یہ واقعہ پیش آیا ہے اُسے ریاست کے ضمیر کو جھنجوڑ دینا چاہئے تھا۔