[]
جوہرہ الوابیلی سعودی عرب میں قانونی طور کار چلانے والی اولین خواتین میں سے ایک ہیں۔ ان کے بقول پانچ سال قبل جب پہلی مرتبہ انہوں نے سڑکوں پر گاڑی دوڑائی تھی، تو انہیں آزادی کا حقیقی ادراک ہوا تھا۔
سعودی عرب میں پانچ برس قبل خواتین کو کار چلانے کی اجازت دی گئی تھی۔ تب کئی خواتین نے ڈرائیونگ لائسنس حاصل کیے تھے تا کہ وہ قانونی طور پر کار چلانے کے قابل ہو جائیں۔ جوہرہ الوابیلی انہی میں سے ایک ہیں۔
پچپن سالہ جوہرہ کے بقول وہ لمحہ اب بھی ان کے ذہن میں تازہ ہے، جب انہوں نے بغیر کسی خوف کے سڑکوں پر پہلی مرتبہ گاڑی چلائی تھی۔ وسطی شہر بردیدہ کی اس باسی نے مزید کہا، ”جیسے ہی مجھے اجازت ملی، میں نے گاڑی چلانا شروع کر دی۔‘‘
اس پیش رفت سے عالمی سطح سعودی عرب خبروں کی زینت بنا اور کہا گیا کہ شہزادہ محمد بن سلمان کے وژن کی وجہ سے ہی یہ ممکن ہوا۔ تب کچھ حلقوں میں یہ گفتگو بھی ہوئی کہ یہ صرف ایک ڈرامہ ہے تاکہ عالمی برادری کے سامنے اس قدامت پسند اسلامی ریاست کی ساکھ بہتر کی جا سکے۔ ریاض حکومت کا کہنا ہے کہ پانچ برس بعد اب سعودی عرب میں حقیقی تبدیلیوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔
انسانی حقوق کے ادارے البتہ اب بھی سعودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ اس ملک میں اب بھی تنقیدی آوازوں کی کوئی جگہ نہیں جبکہ خواتین کو امتیازی اور تعصب آمیز رویوں کا سامنا ہے۔
جوہرہ کا کہنا ہے کہ کسی ریاست میں انسانی حقوق کی بہتری مرحلہ وار ہی ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں کہ سب کچھ اچانک ہی بدل جائے۔ ان کے بقول حالیہ برسوں کے دوران سعودی خواتین نے نہ صرف ڈرائیونگ لائسنس حاصل کیے ہیں بلکہ وہ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نام کمانے میں بھی کامیاب ہوئی ہیں۔
جوہرہ نے کہا کہ اب سعودی عرب میں خواتین بینکوں، تعلیمی اداروں، ہسپتالوں اور دیگر سرکاری دفاتر کے علاوہ خلا بازی جیسے شعبوں میں بھی نظر آ رہی ہیں۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ اگرچہ اس خلیجی ملک میں اس تبدیلی کی رفتار کچھ زیادہ تیز نہیں لیکن حالات بدل رہے ہیں۔
خواتین کے حقوق کی سرگرم کارکن سوزش شکیلی تسلیم کرتی ہیں کہ بااثر حلقوں میں خواتین کی زندگیوںمیں کچھ تبدیلی ضرور آئی ہے لیکن عوامی سطح پر یہ صرف دستاویزی تبدیلیاں ہیں۔ عرب گلف اسٹیٹس انسٹی ٹیوٹ واشنگٹن سے وابستہ سوزن نے کہا، ”یہ تمام اصلاحات قانونی تبدیلیاں ہیں۔ یہ اصلاحات صرف تحریر کی گئی ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان پر عمل بھی ہونے لگا ہے۔‘‘
سعودی عرب میں گزشتہ برس ہی ایک قانون منظور کیا گیا، جس کے تحت خواتین کی شادی، طلاق اور بچوں کی دیکھ بھال جیسے امور وضع کیے گئے ہیں۔ اگرچہ ریاض حکومت نے اس قانون کو پراگریسیو قرار دیا لیکن انسانی حقوق کے اداروں نے اس قانون کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔
ہیومن رائٹس واچ نے اس قانون کو ‘خواتین کے خلاف امتیازی‘ قرار دے دیا ہے۔ سعودی ایکٹیوسٹ ہالہ الدوسارائی نے کہا ہے کہ بالخصوص قدامت پسند گھرانوں میں خواتین ہمیشہ مرد ممبران کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہی ہوتی ہیں۔ امریکہ میں مقیم اس خاتون کارکن نے مزید کہا کہ کچھ خواتین ایسے التباسات کا شکار ہیں کہ حالیہ اصلاحات کی وجہ سے انہیں آزادی مل چکی ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔
ہالہ کے بقول چھوٹی موٹے معاملات میں خواتین کو اپنی مرضی سے عمل کرنے کی اجازت دے دینا، دراصل اس بات کی غمازی نہیں کرتا کہ وہ اپنی زندگی کے فیصلے خود کر سکتی ہیں، ”زیادہ تر خواتین اب بھی اپنے گھر والوں یا ریاستی جبر کا نشانہ بنائی جا رہی ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ بالخصوص ایسی خواتین تو زیادہ عتاب میں آتی ہیں، جو آواز بلند کرتی ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔