[]
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے اتر پردیش کے مظفر نگر میں ایک کمسن مسلم طالب علم کو ایک ٹیچر کے حکم پر اس کے ہم جماعت طلبا کی جانب سے تھپڑ مارنے کے معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے پیر کو کہا کہ یہ واقعہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے اس سے حکومت کا ضمیر جھنجھوڑا جانا چاہیے تھا۔
جسٹس ابھے ایس اوکا اور پنکج متھل کی بنچ نے اتر پردیش میں اسکولوں میں دی جانے والی تعلیم کے معیار پر سنگین سوالات اٹھائے اور اسے ہدایت دی کہ ایک ٹیچر کے اپنے طالب علموں کو ایک مسلم طالب علم کو تھپڑ مارنے کے مبینہ واقعہ کی تحقیقات اور نگرانی کرنے کے لئے ریاستی حکومت انڈین پولیس سروس (آئی پی ایس) افسر کو تعینات کرے گی۔
بنچ نے کہاکہ یہ معاملہ معیاری تعلیم سے متعلق ہے، جس میں حساس تعلیم بھی شامل ہے۔ جس طرح سے یہ ہوا ہے اس سے ریاست کا ضمیر جاگ جانا چاہئے۔
بنچ کی طرف سے طالب علم کو دی جانے والی یہ سزا ‘بدترین جسمانی سزا’ ہو سکتی ہے۔ عدالت نے پہلی نظر میں ریاستی حکومت کو تعلیم کے حق کے قانون اور طلباء کو جسمانی اور ذہنی طور پر ہراساں کرنے اور مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر ان کے ساتھ امتیازی سلوک پر پابندی لگانے والے قواعد کی تعمیل کرنے میں ناکام پایا۔
جسٹس اوکا نے کہا کہ ہم ہمیشہ از خود نوٹس لے سکتے ہیں کیونکہ یہ آئین کے آرٹیکل 21اے (تعلیم کا حق) کی براہ راست خلاف ورزی ہے۔
بنچ نے حکومت کی اس دلیل کو مسترد کر دیا کہ تشار گاندھی کی طرف سے دائر درخواست پر غور نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ مہاتما گاندھی کے پڑپوتے ہیں۔
عدالت عظمیٰ نے کیس دائر کرنے میں طویل تاخیر اور طریقہ کار پر بھی شدید اعتراض کیا۔
جب حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل کے ایم نٹراج نے کہا کہ فرقہ وارانہ پہلو کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔ اس پر بنچ نے ان سے پوچھاکہ ‘یہ بہت سنگین معاملہ ہے۔ استاد نے اپنے مذہب کی وجہ سے بچے کو مارنے کا حکم دیا؟ کیسی تعلیم دی جا رہی ہے؟”
بنچ نے نٹراج سے کئی سوالات پوچھے اور کہاکہ ‘ایک سینئر آئی پی ایس افسر کو تحقیقات کی نگرانی کرنے دیں۔ چارج شیٹ کب داخل ہوگی؟ گواہوں اور بچے کو کیا تحفظ دیا جائے گا؟ ہم جاننا چاہتے ہیں۔ مشاورت پیشہ ورانہ ہونی چاہئے۔”
بنچ نے پوچھاکہ ‘ (متاثرہ طالب علم کے والد) نے ایک بیان دیا تھا جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ اسے مذہب کی وجہ سے مارا پیٹا گیا ہے۔ مقدمے میں اس الزام کا ذکر نہیں ہے۔‘‘
سپریم کورٹ نے یہ بھی نوٹ کیا کہ وقت گزرنے کے بعد 6 ستمبر 2023 کو جوینائل جسٹس ایکٹ 2015 کی دفعہ 75 اور آئی پی سی کی دفعہ 323 اور 503 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
سپریم کورٹ نے ریاستی حکومت کو تعمیل رپورٹ داخل کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ ریاست کو اس اہم سوال کا جواب دینا ہوگا کہ وہ جرم کے شکار کو اس کی معیاری تعلیم کے لیے کیا سہولیات (آر ٹی ای ایکٹ کے تحت) فراہم کرے گی۔ یہ ایکٹ کہتا ہے کہ ریاست کسی بچے سے اسی اسکول میں تعلیم جاری رکھنے کی توقع نہیں کر سکتی۔
سپریم کورٹ نے کیس کی اگلی سماعت کے لیے 30 اکتوبر کی تاریخ مقرر کی ہے۔