امام حسن عسکری (ع) کا دور شیعوں کے رابطوں میں توسیع کے اعتبار سے سنہری دور کہلاتا ہے

[]

مہر خبررساں ایجنسی؛ دین و اندیشہ ڈیسک: آج 8 ربیع الاول امام حسن عسکری علیہ السلام کا یوم شہادت ہے۔ امام حسن عسکری (ع) کی ولادت آٹھ ربیع الثانی سنہ 232 ہجری کو مدینہ الرسول میں ہوئی۔ 

آپ کے والد محترم امام ہادی علیہ السلام تھے اور آپ کی والدہ ایک دانا اور پرہیزگار خاتون تھیں جنہیں حدیث یا سلیل کہا جاتا تھا۔ 

آپ کی کنیت ابو محمد تھی اور لوگ  ابن الرضا (ع) کے نام سے جانتے تھے۔ ائمہ اطہار ع نے آپ کی امامت کی بشارت آپ کی ولادت سے برسوں پہلے  دی تھی۔ 

مثال کے طور پر امام جواد علیہ السلام آپ کی امامت کے بارے میں فرماتے ہیں: “میرے بعد پیشوا اور امام میرا بیٹا علی ہے۔” اس کا حکم میرا حکم ہے، اس کی بات میری بات ہے اور اس کی اطاعت میری اطاعت ہے۔ ان کے بعد امام اور پیشوا ان کا بیٹا حسن ہے۔

ائمہ معصومین علیہم السلام کی زندگی کے مختلف پہلو ہیں اور ان میں سے ایک اہم پہلو خالص اسلامی افکار، تعلیمات اور ثقافت کی حرمت کا دفاع ہے۔ 

انہوں نے اس راہ میں بھرپور جد وجہد  کی، سخت ترین حالات میں بھی وہ عقیدے کو بگاڑنے والوں اور راہ اعتقاد کے راہزنوں کے سامنے ڈٹ گئے اور انہوں نے شیعہ علماء کو تاکید کی کہ وہ اسلامی عقائد اور دینی ثقافت کی سرحدوں کی حفاظت سے ہرگز دریغ نہ کریں اور اپنی توانائی کے مطابق بھرپور کوشش کریں۔

امام حسن عسکری علیہ السلام نے امام ہادی علیہ السلام کے دور میں اور اپنی چھ سالہ امامت کے دوران ظلم و ستم کا مقابلہ کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیشہ ان فرقوں کے خلاف جدوجہد کی جو اسلام کے نام پر خالص اسلام کو مسخ کر رہے تھے، آپ ان کے بارے میں شیعوں کو بار بار خبردار کرتے رہے ہیں۔ 

اس سلسلے میں امام حسن عسکری علیہ السلام نے بہت کوشش کی اور ان کے خلاف فیصلہ کن موقف اختیار کر کے انہیں بے نقاب کیا اور ان کے باطل نظریات کو پھیلنے سے روکا، کیونکہ وہ لوگ اسلام ناب کی وسیع اور گہری تعلیمات کے پھیلاو میں بہت بڑی رکاوٹ تھے۔ یہ لوگ دوسری طرف اسلام کے  دشمنوں اور ظالموں کو تقویت بخشتے تھے جس کے نتیجے میں دشمن کو طاقت میسر آجاتی تھی لہذا امام ع نے ان کے خلاف بھرپور مہم چلائی۔

امام حسن عسکری (علیہ السلام) نے اپنی قائدانہ قوت جاذبہ سے مخلص دوستوں اور کارآمد دانشوروں کو اپنی طرف متوجہ کیا اور قوت دافعہ کے ذریعے ان دوست نما دشمنوں اور منحرف عناصر کو سختی سے دھتکارا جو در اصل اسلامی تعلیمات کی جڑوں پر حملہ کرتے تھے۔

ایک دن امام حسن عسکری علیہ السلام نے سنا کہ “احمد بن ہلال” نامی ایک شخص اپنے دکھاوے اور پرفریب الفاظ سے شیعوں کے واضح اعر مسلم عقائد پر حملہ کر رہا ہے اور صوفیانہ اداوں اور کج فکری سے لوگوں کے عقیدوں متزلزل کر رہا ہے۔

اگرچہ بعض لوگ یہ خیال کرتے تھے کہ وہ نیک آدمی ہے جس نے54 بار پیدل حج انجام دئے ہیں۔

 لیکن امام نے عراق میں اپنے نمائندوں کو سختی سے لکھا کہ “اس بناوٹی اور جھوٹے صوفی دور رہو” 
 
پھر کچھ لوگوں نے کوشش کی کہ احمد بن ہلال کے بارے میں امام حسن عسکری (ع) کی رائے کو بدل دیا جائے۔ لیکن امام نے بغیر کسی ابہام کے پوری وضاحت کے ساتھ فرمایا: “ہمارا حکم احمد بن ہلال کے بارے میں کہ خدا اسے نہ بخشے، آپ لوگوں تک پہنچا، خدا اس کے گناہوں کو معاف نہیں کرتا، اور اس کی خطا کو واپس نہیں لیتا، اس نے ہماری رضامندی اور نظریہ کے بغیر سرکشی کرتے ہوئے ہمارے معاملات میں مداخلت کی اور اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کی۔ ارادہ خداوندی یہ کہ اسے جہنم میں بھیجا جائے، ہم اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ خدا ہماری نفرین کی وجہ سے اس کی عمر کوتاہ کر دے گا۔

امام حسن عسکری علیہ السلام صوفیاء پر تنقید کرنے میں اس قدر سخت تھے کہ انہوں نے ایک خطاب میں لکھا جو ہر دور کے شیعوں کے لیے ایک راہنما بیان ہے: آگاہ رہو کہ یہ مومنین کے عقیدوں کے راہزن ہیں اور لوگوں کو ملحد اور منکرین کے راستے کی طرف بلاتے ہیں، جو بھی ان کا سامنا کرے وہ ان سے ضرور دور رہے اور اپنے دین و ایمان کو ان کے گزند سے بچائے۔

امام عسکری (ع) اپنی چھ سالہ امامت کے دوران معتز عباسی، مہتدی اور معتمد جیسے تین طاغوتی حکمرانوں سے نبرد آزما رہے، اس دور میں شیعہ مکتب کی بنیاد اور اسلام کے بنیادی ارکان کو ان غاصبوں اور باغیوں کے سے بچانے کی خاطر ہمیشہ ان کے ساتھ حالت جنگ میں رہے، اس لیے امام ع اور آپ کے ساتھیوں کو ہمیشہ طرح طرح کی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا اور قیدخانوں کی گھٹن زدہ صعوبتیں برداش کرنی پڑی۔

یہاں تک کہ امام حسن عسکری علیہ السلام کے بارے میں کہا گیا ہے کہ آپ کو اپنے جد امام کاظم علیہ السلام کی طرح ایک زندان سے دوسرے زندان و منتقل کیا جاتا تھا۔” بہرحال تمام تر دباؤ اور قید و بند کی صعوبتوں کے بعد آخر میں امام علیہ السلام کی زہر کے ذریعے  شہادت کا راز اس کے سوا کچھ نہیں تھا کہ آپ نے دین کو تحریف سے بچانے کے لئے قربانی دی اور اس مقدس مقصد کی حفاظت کے لیے آپ کا شیعوں سے ہر وقت رابطہ رہتا تھا اور آپ کے نمائندے ہر جگہ موجود رہتے تھے اور خطوط ہمیشہ ان تک پہنچتے تھے۔ یوں شیعہ آپ کے خفیہ نمائندوں سے رابطے میں تھے۔ 

دوسری طرف بہت سی روایات کے مطابق تمام مسلمان جانتے تھے کہ ایوان طاغوت کو ڈھانے والے اور خالص دین اسلام کو زندہ کرنے والے حضرت قائم (ع) آپ ع کی اولاد ہیں۔ اس لیے وہ آپ سے زیادہ خطرہ محسوس کرتے تھے۔ 

محدث قمی اس بارے میں لکھتے ہیں: “تین عباسی خلفاء نے امام حسن عسکری علیہ السلام کو شہید کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ انہیں اطلاع ملی تھی کہ حضرت مہدی علیہ السلام ان کے صلب سے دنیا میں آئیں گے۔

رہبر معظم انقلاب حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس دور میں شیعہ تنظیموں کی توسیع کے بارے میں فرمایا: حضرت امام رضا، حضرت امام جواد، حضرت امام ہادی اور حضرت عسکری کے دور میں شیعہ روابط پہلے سے کہیں زیادہ وسیع تھے۔ کسی بھی وقت پوری اسلامی دنیا میں شیعہ تنظیموں کا رابطہ اور توسیع امام جواد، امام ہادی اور امام حسن عسکری کے زمانے جیسا نہیں رہا۔

وکلاء اور نوابوں کا وجود اور وہی روایات جو حضرت ہادی اور حضرت عسکری کے بارے میں بیان کرتے ہیں  کہ مثال کے طور پر، کوئی شخص رقم  لے کر آیا تو امام نے فیصلہ کیا کہ کیسے خرچ کرنا چاہئے۔ یہ عمل اسی معنی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ یعنی ان دو بزرگ ائمہ کا سامرہ میں نظربند ہونے کے باوجود اور اسی طرح ان سے پہلے حضرت امام جواد علیہ السلام اور حضرت امام رضا علیہ السلام کا کسی نہ کسی طرح لوگوں کے ساتھ رابطے کا سلسلہ پھیلا۔

 یہ رابطے حضرت امام رضا کے زمانے سے پہلے بھی تھے۔ البتہ آپ کی خراسان میں کی آمد کے بعد اس رابطے میں بہت وسعت آگئی۔

امام رضا کے بعد امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت تک ایسا ہی یہ سلسلہ چلتا رہا۔

امام ہادی اور امام عسکری ع ایک ہی شہر سامرہ میں جو درحقیقت ایک فوجی چھانی کی طرح تھا اور یہ اتنا بڑا شہر نہیں تھا بلکہ یہ نیا دارالحکومت تھا کہ “سر من رائ”؛ حکومت کے سربراہان اور امراء کچھ  عام لوگ جو اپنی روزمرہ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے اس میں جمع ہوتے تھے۔ ایک ایسے شہر میں یہ دونوں امام تمام اسلامی دنیا کے ساتھ رابطوں کا نیٹ ورک قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ جب ہم ائمہ کی زندگی کے ان پہلووں پر نظر ڈالیں گے تو ہم سمجھ جائیں گے کہ انہوں نے یہ سب کیسے کیا؟ ایسا نہیں ہے کہ انہوں نے صرف نماز اور روزے یا طہارت و نجاست کے سوالوں کا جواب دیا ہو۔ نہیں بلکہ وہ “امام” اسلامی معنی کے مطابق اس منصب پر فائز تھے اور اسی حیثیت سے لوگوں سے بات کرتے۔ 

میری رائے میں ان پہلووں کے ساتھ یہ جہت بھی اہم ہے کہ آپ نے دیکھا کہ امام ہادی کو مدینے سے سامرہ لایا گیا اور کم عمری میں یعنی بیالیس سال کی عمر میں شہید کر دیا گیا یا حضرت امام حن عسکری کو اٹھائیس سال کی عمر میں شہید کیا گیا، یہ سب تاریخ میں ائمہ معصومین علیہم السلام اور شیعوں اور ان بزرگوں کے اصحاب کی عظیم تحریک کو ظاہر کرتے ہیں۔

اگرچہ نظام خلافت کا سخت پولیس نگرانی سیٹ اپ پوری شدت کے ساتھ برتاو کرتا تھا لیکن اس کے باوجود ائمہ علیہم السلام اس طریقے سے کامیاب ہوئے۔

 اس لیے ہمیں ائمہ ع کے بارے میں ان کی غربت کے پہلو کے ساتھ ان کی اس عظیم کامیابی و عظمت کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *