قدرت نے ایم ایف حسین کو برش و رنگوں کے ذریعے شاہکار تراشنے کا فن عطا کیا تھا

[]

1934 میں اندور کی ایک سڑک کنارے حسین کی پہلی تصویر دس روپے میں فروخت ہوئی تو حسین بے اختیار دادا کی قبر پر دوڑے چلے گئے اور حسین نے پھر مڑ کر پیچھے نہیں دیکھا۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر بشکریہ سوشل میڈیا ویکیپیڈیا</p></div>

تصویر بشکریہ سوشل میڈیا ویکیپیڈیا

user

دنیا میں بہت کم ایسی ہستیاں پیدا ہوتی ہیں جنہوں نے زندگی میں توبے پناہ شہرت حاصل کی ہو ، مرنے کے بعد بھی برسوں تک لوگ انہیں بھلا نہیں پائے ہوں۔17 ستمبر 1915 میں ہندستان کے ایک چھوٹے سے علاقے میں پیدا ہونے والے عظیم مصور مقبول فدا حسین بھی ان شخصیات میں سے ایک تھے ۔

گھرانہ مذہبی سلیمانی بوہری تھا جو داؤدی بوہریوں سے جدا ایک چھوٹا سا فرقہ ہے۔مادری زبان گجراتی تھی۔ مصوری کا شوق مدرسے  سےپروان چڑھا۔مدرسے میں حسین پڑھتے پڑھاتے نہیں تھے بلکہ خطاطی کرتے تھے اور ممبئی کے آرٹ اسکول میں طالب علمی کے دوران ہی فلموں کی ایسی لت پڑی کہ فلموں کے پوسٹر بنانے شروع کردیئے تھے۔جس سے انکی پڑھائی کا اور رہن سہن کا خرچہ نکل آتا تھا۔

حسین کے والد نے بہت چاہا کہ وہ کاروبار کی طرف مائل ہو جائیں لیکن ان کا رجحان تو پیٹنگ کی طرف تھا۔ وہ دکان پر بیٹھتے تو بھی پنسل سے خاکے بناتے رہتے تھے۔ انہوں نے اپنی پہلی آئل پینٹنگ دکان پر ہی بیٹھ کر بنائی۔ ان کے چچا جنہیں یہ دکان ان کے باپ ہی نے بنا کر دی تھی، یہ دیکھ کر بہت ناراض ہوئے اور ان کے باپ کو بتایا۔ جب ان کے والد نے وہ تصویر دیکھی تو مقبول حسین کو گلے لگا لیا۔ مقبول چند دنوں بعد بیندرے صاحب (مشہور مصور) کو اپنے باپ سے ملانے لے گئے۔ بیندرے بھی اندور سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے ان کے والد کو صلاح دی کہ حسین اچھے مصور بن سکتے ہیں اور انہوں نے یہ بات مان لی۔ مقبول خود حیران ہوئے کہ یہ سب کیسے ہو گیا۔ ان کے باپ کے ان الفاظ کے ساتھ حسین کی پیشہ ورانہ فنی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ ان کے باپ نے ان کا حوصلہ بڑھایا اور کہا ’’ بیٹا جاؤ اور اپنی زندگی کو رنگوں سے بھر دو۔‘‘

دادا نے بھی مرتے ہوئے حسین کی مٹھی میں دس روپے ایسے رکھے تھے کہ گویا عمر بھر کا امام ضامن باندھ دیا ہو۔ 1934 میں اندور کی ایک سڑک کنارے حسین کی پہلی تصویر دس روپے میں فروخت ہوئی تو حسین بے اختیار دادا کی قبر پر دوڑے چلے گئے اور اس کے بعد حسین نے مانو مڑ کر پیچھے نہیں دیکھا۔

ایم ایف حسین نے چار آنے سے ایک کروڑ تیئس لاکھ روپے کمانے تک کا سفر یوں ہی اور آسانی سے طے نہیں کیا بلکہ برسوں کی محنت اور اپنے کام سے لگن کی بدولت وہ اس مقام تک پہنچے۔جس دور میں وہ فلمی پینٹرہوا کرتے تھے اس وقت چھ بائی دس فٹ کے پوسٹر بنانے کے انہیں صرف چار آنے ملتے تھے۔ اس پر بھی تنگ دستی کا حال یہ تھا کہ ایک بار معاشی حالات کی بہتری کیلئے انہیں ایک فیکٹری میں مزدور کی حیثیت سے کام کرنا پڑا۔ اس فیکٹری میں کھلونے تیار ہوتے تھے۔

حقیقت تو یہ ہے ایک مصور کی حیثیت سے ان کی پہچان 1940 میں ہوئی تھی جبکہ ان کی بنائی ہوئی تصاویر کی پہلی باقاعدہ نمائش 1947ء میں ہوئی تھی۔ پچاس کی دھائی سے وہ ترقی پسند فنکاروں کی صف میں شامل ہوئے۔ 60 کے عشرے سے انہیں ہندستان کا نہایت تجربہ کار اور منجھا ہوا مصور شمار کیا جانے لگا۔

ان کا اپنا مخصوص لائف اسٹائل تھا ۔ وہ نگے پاوٴں رہاکرتے تھے ۔ اپنی گاڑی کو بھی انہوں نے اپنی پسند کے مختلف رنگوں میں خود پینٹ کیا ہوا تھا۔ انہیں ہندوستان کے اعلیٰ ترین اعزازات سے نوازا گیا جس میں ‘پدم بھوشن’ بھی شامل ہے۔ انہیں پارلیمنٹ کے لئے بھی نامزد کیا گیا۔ جس قدر ایوارڈز انہیں ملے ،ان کا شمار بھی ایک مشکل امر ہے۔

ایک وقت ایسا آیا گویا ان کی شہرت کو پر لگ گئے ہوں ۔ جب یہ شہرت ہندستان کی سرحدوں سے نکل کر بیرون ملک پہنچی تو انہیں ‘ ہندستان کا پکاسو’ کہہ کر پکارا جانے لگا۔ دریں اثناء راگ مالا سیریز کیلئے بنائی گئی ان کی ایک تصویر لندن کے کرسٹیز نیلام گھر میں لاکھوں ڈالرز میں فروخت ہوئی۔ انہوں نے بیرون ملک ہندستان کی ثقافت ،کلچراور مذہبی روایات کواپنے انداز میں متعارف کرایا۔ وہ ہندستان کے ان چند عظیم مصوروں میں سے ایک تھے جن کے بنائے ہوئے شاہکار کی بین الاقوامی مارکیٹ میں قیمتیں آسمان چھوتی ہیں۔اپنے انتقال سے صرف چار روز پہلے ہی ان کا ایک شاہکار،جس کا نام انہوں نے ‘ ہارس اینڈ وومن ‘ رکھا تھا ،لندن میں ایک کروڑ تیئس لاکھ روپے میں فروخت ہوا۔

ان کی 3 پینٹنگس بان ہیم آکشن میں سب سے زیادہ قیمت پر نیلام کی گئی۔ ان کی آئیل پینٹنگ پر 2.32کروڑ روپیے قیمت آئی۔ ان کی ایک پینٹنگ جو ایک خاتون اور ایک گھوڑے پر مشتمل تھی ، 1.23 کروڑ میں نیلام ہوئی۔ ان کے بنے ہوئے فن پارے اور مجسمے لاکھوں ڈالرز میں فروخت ہوئے ۔ایم ایف حسین کا ایشیا کے ان امیر ترین مصوروں میں شمار ہوتا تھا جن کے فن پارے مہنگے داموں فروخت ہوتے تھے۔ انھیں 1971ء میں عالمی شہرت یافتہ مصور پابلو پکاسو کے ساتھ ساؤپولو میں منعقدہ مصوری میلے میں مدعو کیا گیا تھا جہاں انھیں فوربس میگزین نے ”ہندستان کا پکاسو” کے خطاب سے نوازا تھا۔

ایم ایف حسین شارٹ فلمیں بنانے میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔سن 1994 میں جب ان کی نگاہ مادھوری ڈکشٹ پر پڑی۔ وہ مادھوری دکشت کی خوب صورتی اور حسن کے وہ دلدادہ ہوگئے تھے۔ انہوں نے مادھوری کے ساتھ ‘گج گامنی’ کے نام سے’ ٹیل آف تھری’ سیریز بنائی جس میں انہوں نے مادھوری کو اس قدر خوب صورتی کے ساتھ پینٹ کیا کہ نئی نسل میں ان کی وجہ شہرت ہی مادھوری کی پینٹنگس بن گئیں۔ انہیں مادھوری کے فن سے دیوانگی کی حد تک لگاوٴ تھا۔ انہیں مادھوری کی ایک فلم “ہم آپ کے ہیں کون” اس قدر پسند تھی کہ 70 مرتبہ اسے دیکھا۔

ان کے یہ الفاظ ‘‘سینما کے حساب سے ہم آپ کے ہیں کون کوئی دھماکہ فلم نہ تھی۔لیکن وہ (مادھوری) تو اللہ کی پناہ۔میں تو گویا راہداریوں میں ہی ناچ رہا تھا۔اس کے بعد یوں ہوا کہ جس شہر میں ،دنیا کے جس کونے میں یہ فلم دیکھنے کو ملی میں نے موقع ضائع نہیں کیا۔دی دی تیرا دیور دیوانہ گانا ان کو بہت پسند تھا۔ ان میں مادھوی دکشت کے ڈانس سے بے حد متاثر ہوئے ۔ مادھوری کے پانچ الٹے قدم ایم ایف حسین کے جادہء عشق کے لیے منزل حسن و ناز کی جا نب ایک بہت بڑا سفر ثابت ہوئے اور اس کے بعد تو گویا ایک دروازہء خاور کھلا۔ تبو،ودیا بالن،ارمیلا ماتوندکر،امرتا راؤ اور پھر انوشکا شرما ان کے آستانہء عالیہ پر بڑی دور سے چل کے آتی تھیں۔

اس سے قبل 1967ء میں انہوں نے برلن انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں اپنی دستاویزی فلم ‘تھرو دی آئیز آف اے پینٹر’ کے لئے’ گولڈن گلوب ایوارڈ’ حاصل کیا ۔ اس کے علاوہ بھی انہوں نے کئی شارٹ فلمیں بنائیں۔ وہ اپنی لگن اور زبان دونوں کے بڑے پکے تھے۔ نڈر تھے ، کئی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ ان کی آپ بیتی بھی شائع ہوچکی ہے۔

مقبول فدا حسین فلمی دنیا کو اپنی طرف سے دبئی میں ہندی فلموں کا ایک نہایت وسیع میوزیم بطور تحفہ دینا چاہتے تھے جس کے لئے وہ آخری وقت تک کام بھی کرتے رہے۔ گو کہ فوری طور پر یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ کام کس حدتک مکمل ہوا لیکن ان کے چاہنے والوں اور ان کے جانشینوں کو یہ کوشش ضرور کرنی چاہئے کہ ان کا یہ خواب ضرور پورا ہو۔ وہ دنیا کے بیشمار ممالک میں ہندستان کی پہچان بنے مگرانہیں آخری سانسیں لندن میں آئیں۔ وہ دوبئی میں بھی رہے اور قطر نے تو انہیں اعزادی شہریت دے رکھی تھی۔

ان کی پینٹنگس پر جہاں ایک طرف کئی گوشوں سے ستائش کی گئی تھی وہیں دوسری طرف ان کو تنقیدوں کا نشانہ بھی بنایا گیا تھا۔ ستر کی دہائی میں ان کی شہرت نے ایک نیا موڑ لیا۔ وہ یکایک متنازعہ حیثیت اختیار کرگئے۔ انہوں نے کچھ ہندو دیوی دیوتاؤں کی عریاں تصاویر بنائیں جس کا جواز ان کے پاس یہ تھا کہ اجنتا اور ایلورا کی تاریخی وادیوں میں بھی اسی طرح کے دیوی دیوتاوٴں کے مجسمے ہیں لہذا اگر انہوں نے اپنے کینوس پر انہیں اتارا ہے تو اس میں کیا حرج ہے لیکن ان کا جواز کسی طرح قابل قبول نہ ہوا۔ سپریم کورٹ سمیت مختلف عدالتوں میں ان کے خلاف مقدمات قائم کر دیئے گئے۔ انہیں قتل کی دھمکیاں دی جانیں لگیں۔ ایک تنظیم نے ان کے سر کی قیمت گیارہ اعشاریہ پانچ ملین روپے مقرر کی جس کے بعد وہ 2006 میں جلا وطنی پر مجبور ہوگئے۔

ستمبر 2007 میں کیرالا کے ہائی کورٹ نے فدا حسین کو ایوارڈ دینے پر پابندی عائد کردی۔ کیرالہ حکومت نے اس سال مصوری کا معروف ”راجہ روی ورما ایوارڈ، فداحسین کو دینے کا فیصلہ کیا تھا۔
ستمبر 2008 میں ہندوستان کی سپریم کورٹ نے مقبول فدا حسین کی ایک متنازعہ پینٹنگ کے سلسلے میں فنکار کے کام کا دفاع کرتے ہوئے فن کا نمونہ قرار دیا اور ان کے خلاف دائر درخواست خارج کر دی گئی۔ عدالت کا کہنا تھا کہ ملک میں لاتعداد فحش مجسمے اور تصویریں عام ہیں، ان سے لوگوں کے جذبات کیوں مجروح نہیں ہوتے۔ اس سلسلے میں دہلی ہائی کورٹ نے بھی ان کے خلاٴف دائر درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی پینٹنگ فحش نہیں۔ عالمی شہرت یافتہ ہندستانی مصور مقبول فداحسین (ایم ایف حسین)97 سال کی عمر 9 جون 2011 کو لندن کے ایک اسپتال میں انتقال کرگئے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


;



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *