[]
سوال:- میرے خاندان کی ایک خاتون حال ہی میں بیوہ ہوگئی ہیں، وہ ایک اسکول میں ملازمت کرتی ہیں، چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، اب یہی روزگار ان کے لئے گزر بسر کا ذریعہ ہے، ایسی صورت میں اگر وہ پوری عدت اسکول نہ جائیں تو قوی اندیشہ ہے کہ ملازمت ختم ہوجائے، ایسی صورت میں عدت وفات میں کیا وہ اپنی ڈیوٹی کرسکتی ہیں ؟ ( امام الدین، حیات نگر)
جواب:- عدت وفات کا نفقہ چوںکہ شوہر مرحوم کے ترکہ میں واجب نہیں ہوتا؛ اس لئے فقہاء نے بیوہ کے لئے عدت کے دوران کسب ِمعاش کے لئے عدت گذارنے کی جگہ سے باہر جانے کی اجازت دی ہے، اور وہ ضرورت کے بقدر دن اور رات کے کچھ حصہ میں باہر نکل سکتی ہے؛
البتہ اگر اس کے پاس اتنے پیسے موجود ہوں کہ وہ اپنے اخراجات پوری کرسکتی ہے، یا کوئی اور شخص اس کے اخراجات ادا کرنے کے لئے تیار ہو، تو اس کے لئے باہر نکلنا جائز نہیں:
’’قولہ ومعتدۃ الموت تخرج یوما وبعض اللیل لتکسب لأجل قیام المعیشۃ؛ لأنہ لا نفقۃ لھا، حتی لوکان عندھا کفایتھا صارت کالمطلقۃ، فلا یحل لھا أن تخرج لزیارۃ ولا لغیرھا لیلاً ولا نھارا، الخ ‘‘ (البحر الرائق: ۴؍۱۶۶، نیزدیکھئے: فتح القدیر: ۴؍۳۴۳) –
اگر ان کے پاس موجودہ اخراجات کے لئے پیسے ہوں اور چھٹی نہ ملے تو اول تو اگر رُخصت بلا تنخواہ مل سکتی ہو، تو وہ حاصل کرنی چاہئے، اور اگر پرائیویٹ ملازمت ہو اور اُمید ہو کہ ملازمت چھوٹ جانے پر دوبارہ ملازمت مل سکتی ہے، تب بھی اسے ڈیوٹی چھوڑ کر عدت گزارنی چاہئے،
اور اگر اتنی طویل چھٹی نہ مل سکتی ہو اور ملازمت چھوٹ جانے پر دوسری ملازمت ملنا دشوار ہو تو ایسی صورت میں وہ دن کے وقت اپنی ڈیوٹی انجام دے سکتی ہے؛ کیوںکہ جس بات کے مستقبل میں واقع ہونے کا قوی اندیشہ ہو، وہ واقع شدہ صورت حال کے حکم میں ہوتی ہے،
فقہاء نے مختلف مسائل میں اسی اُصول پر حکم لگایا ہے، یہاں بھی اسی اُصول پر عمل کیا جائے گا؛ کیوںکہ اگرچہ ابھی وہ محتاج نہیں ہے اور اپنی اور اپنے بچوں کی ضرورت پوری کرسکتی ہے؛ لیکن اگر ملازمت چھوڑ دے تو قوی اندیشہ ہے کہ مستقبل میں اس کو فقر و فاقہ سے دوچار ہونا پڑے، اور فقر و محتاجی انسان کو بعض اوقات گناہ یہاں تک کہ کفر تک پہنچادیتی ہے: ’’وکاد الفقر أن یکون کفراً ‘‘۔ (شعب الایمان، حدیث نمبر: ۶۱۸۸)