سیرتِ سید نا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی چند جھلکیاں

[]

مولانا حافظ و قاری سید صغیر احمد نقشبندی
شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ

قرآن مجید ، حدیث شریف اہل اسلام کی ہدایت کے بنیادی اصول ہیں، اسی طرح صحابہ کرام کی پاکیزہ حیات بھی راہِ ہدایت ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اصحابي کالنجوم فبأیھم اقتدیتم اہتدیتم :میرے صحابہ ستاروں کے مانند ہیں تم ان میں سے جس کی بھی اقتداء کرو گے تو ہدایت پائو گے۔ اسی طرح ایک مرتبہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : میری امت میں (۷۳ )فرقے ہوںگے جن میں سے(۷۲) فرقے جہنم میں جائیں گے اور ایک جماعت جنت میں جائے گی۔ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا وہ کون سی جماعت ہوگی یا رسول اللہ! ﷺ جو جنت میں جائے گی؟ تو آپ ؐ نے ارشاد فرمایا :

ما انا علیہ واصحابي میں اور میرے صحابہ جس طریقے پر ہیں اس کی اتباع کرنے والے جنت میں جائیں گے۔ تمام صحابہ کرام اہل ایمان کے پاس مکرم ومعزز ہیں، ان کا تذکرہ ایمان میںتازگی اور روح میں بالید گی کا سبب ہے، ان میں بالخصوص خلفاء راشدین کی حیات طیبہ بہت ہی اہم اور قیامت تک آنے والی انسانیت کیلئے مشعلِ راہ ہے، ۱۸ ؍ ذی الحجہ کو خلیفہ ثالث کو ظلماً شہید کیا گیا اسی مناسبت سے خلیفہ ثالث حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے حالات کو ذکر کرنا مناسب ہوگا۔

آپ کی تاریخ وفات: ۱۸ ؍ ذی الحجہ ۔ دورِ حاضر میں ہماری نئی نسل غیروں کی پیدائش و وفات کی تاریخ سے تو واقف ہے لیکن افسوس کہ ہمارے سلف صالحین کی سیرت سے ناواقف ہے۔ ان کی تاریخ ِ وفات کے موقعہ پر ایصال ِ ثواب اور ان کے مناقب کے ذکر جمیل کا اہتمام کیا جائے تو نئی نسل ضرور ان کے حالات اور مقامات سے واقف ہوگی۔ یہ حقیقت ہے کہ اہل سنت والجماعت کے یہاں حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ متفقہ طور پر خلیفہ ثالث ہیں۔

علامہ ابن اثیر جزری لکھتے ہیں: حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا نام و نسب یہ ہے: عثمان بن عفان بن ابی العاص بن امیہ بن عبد شمس بن عبدمناف القرشی الاموی – حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا نسب عبدمناف میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جمع ہو جاتا ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو عبد اللہ ہے اور ایک قول کے مطابق ان کی کنیت ابو عمرو ہے، ان کا لقب ذوالنورین اور امیر المؤمنین ہے۔

حضرت عثمانؓ اسلام کی ابتدائی دور میں مسلمان ہو گئے تھے، حضرت ابو بکر نے ان کو اسلام کی دعوت دی اور وہ مسلمان ہو گئے، حضرت عثمانؓ کہتے تھے کہ میں اسلام قبول کرنے والا چوتھا شخص تھا، ابن اسحاق نے ذکر کیا ہے کہ حضرت ابو بکرؓ کے پاس قریش کے لوگ آتے رہتے تھے، اور حضرت ابو بکرؓ کے علم، ان کی تجارت اور ان کی حسن مجالست کی وجہ سے ان سے محبت کرتے تھے، ان لوگوں میں سے جن پر حضرت ابو بکرؓ کو زیادہ وثوق اور اعتماد تھا ان کو وہ اسلام کی دعوت دیتے تھے، حضرت ابو بکر، حضرت زبیر بن عوام، حضرت عثمانؓ بن عفان اور حضرت طلحہؓ بن عبید اللہ کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے، آپ نے ان کے سامنے قرآن مجید پڑھا اور ان کو اسلام کے احکام بیان کیے، تو اسی وقت یہ سب مسلمان ہو گئے۔

جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اسلام لے آئے تو رسول اللہ ﷺ نے اپنی صاحبزادی سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ ان کا نکاح کر دیا، پھر حضرت عثمانؓ اور حضرت رقیہؓ نے مکہ سے حبشہ کی طرف ہجرت کی پھر مکہ واپس آگئے اور مدینہ شریف کی طرف ہجرت کا حکم ملاتو آپ نے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت فرمائی،جب مدینہ پہنچے تو حسان بن ثابت کے بھائی اوس بن ثابت کے ہاں قیام کیا، حضرت رقیہؓ کے وصال کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری صاحبزادی حضرت سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا کو حضرت عثمان کے حبالہ عقد میں دیا جب ان کا بھی وصال ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر میری تیسری صاحبزادی ہوتی تو میں ان کو بھی تمہارے نکاح میں دے دیتا، حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

اگر میری چالیس بیٹیاں بھی ہوتیں تو میں ان سب کو یکے بعد دیگرے عثمانؓ کی زوجیت میں دے دیتا حتی کہ ان میں سے کوئی باقی نہیں رہتی۔ حضرت عثمان غنی ؓ کی اپنی ایک امتیازی شان تھی یہ وہ صحابی ہیں جن کے نکاح میں ایک نبی کی دو صحاب زادیاں تھیں، یہ وہ صحابی ہیں جنہوں نے سب سے پہلے مسلمانوں کی خاطر میٹھے پانی کا چشمہ وقف کیا، یہ وہ صحابی ہیں جنہوں نے سب سے پہلے مسجد نبوی کی توسیع وتزیین نو فرمائی، یہ وہ صحابی ہیں جنہوں نے سب سے پہلے قرآن کریم کو قراء ت واحدہ پر جمع فرمایا، یہ وہ صحابی ہیں جنہوں نے جمعہ کے دن اذان ثانی کا اہتمام کیا ، یہ وہ صحابی ہیں جن کے لئے اللہ کے رسول نے فرمایا عثمان نے بارگاہِ الٰہی میں ایسا عمل پیش کیا کہ آج کے بعد کچھ بھی کرلیں رب کی بارگاہ میں انکی کسی غلطی کی گرفت نہیں ہوگی، یہ وہ صحابی ہیں جنہوں نے تلاوت قرآن کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش کی۔

حضرت عثمانؓ کے دور خلافت میں فتوحات : ۲۴ھ کی ابتداء میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ مجلس شوریٰ کے انتخاب سے خلیفہ اور امیر المومنین منتخب ہوئے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلے اللہ تعالیٰ علیہ وسلم‘ شیخین (ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما) کی سنت کے مطابق کارِ خلافت انجام دیتے تھے، آپ کے بارہ سالہ دور حکومت میں اسلامی سلطنت کا دائرہ وسیع ہو گیا تھا۔ ۲۴ھ میں آپ نے آذر بائیجان اور آرمینیہ پر فوج کشی کر کے وہاں کے باشندوں کو مطیع کیا ، ۲۵ھ میں طرابلس کوفتح کیا، ۲۶ھ میں الجزائر اور مراکش کے علاقے فتح کیے، ۲۸ھ میں بحیرہ روم میں شام کے قریب قبرص کو بحری جنگ سے فتح کیا، ۳۰ھ میں طبرستان کو فتح کیا، ۳۳ ھ میں قسطنطنیہ سے متصل علاقوں میں مرودر، طالستان اور جو زجان کو فتح کیا، اسلامی فتوحات کا یہ سلسلہ حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد رک گیا، اس کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں فتوحات اسلامیہ کو ایک بار پھر نشاۃ ثانیہ حاصل ہوئی۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کے اخیر میں ان کے خلاف بعض لوگوں نے شورش برپا کر دی اور فتنہ وفساد کا ایک سیلاب امڈ آیا شورش کے اسباب مختلف تھے، اس وقت کابل سے لے کر مراکش تک تمام علاقے مسلمانوں کے زیر نگیں تھے جس میں سینکڑوں قومیں آباد تھیں، ان محکوم قوموں میں فطرۃً مسلمانوں کے خلاف جذبہ انتقام موجود تھا لیکن مسلمانوں کی قوت اور سطوت کے مقابلہ میں وہ بے دست و پا تھے اس لیے انھوں نے سازشوں کا جال پھیلایا جن میں یہودی اور مجوسی سب سے آگے تھے۔

شہادت : حضرت مرہ بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مستقبل میں پیش آنے والے فتنوں کا بیان کر رہے تھے۔ اتنے میں ایک شخص کا گزر ہوا جو کپڑا اوڑھے جا رہے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فتنوں کے وقت یہ شخص ہدایت پر ہوگا، میں نے پلٹ کر دیکھا تو وہ حضرت عثمانؓ تھے (ترمذی) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فتنوں کا بیان کرتے ہوئے حضرت عثمانؓ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا یہ شخص ان فتنوں میں ظلما شہید کیا جائے گا۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی کے مطابق یہ یقین تھا کہ ان کی شہادت مقدر ہو چکی ہے۔ حضور ﷺ نے حضرت عثمان کو ان فتنوں سے مطلع کیا تھا اور صبر و استقامت کی تاکید فرمائی تھی (ترمذی) ان حالات میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ لمحہ بہ لمحہ اس وقت کے منتظر تھے جو ان کیلئے مقدر ہو چکا تھا۔

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا محاصرہ کرنے والے دوہزار سے بھی کم افراد تھے اور مکان کے اندر اورباہر ان کے جانثار اس سے کہیں زیادہ تھے ۔آخری وقت تک آپ کے جانثار اور رفقاء آپ سے باغیوں کے مقابلہ اوران کا محاصرہ توڑنے کی اجازت طلب کرتے رہے لیکن آپ کا صرف ایک ہی جواب تھا کہ میں اپنی ذات یا اپنی خلافت کی خاطر مسلمانوں کی تلواریں باہم ٹکراتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا ۔سترہ ذوالحجہ ۳۵ ھ کو جمعہ کا دن تھا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے خواب میں دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما تشریف فرما ہیں اور حضور ؐ فرما رہے ہیں عثمان جلدی کرو ہم تمہارے ساتھ افطار کے منتظر ہیں، ایک روایت میں یہ ہے کہ رسول اللہ صلے اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا عثمان آج جمعہ میرے ساتھ پڑھنا (طبقات ابن سعد) ۔حضرت عثمان بیدار ہوئے اور اپنی اہلیہ محترمہ سے فرمایا اب وقت قریب آ پہنچا ہے پھر لباس تبدیل کیا اور قرآن مجید کی تلاوت میں مشغول ہو گئے۔

تھوڑی دیر بعد باغیوں نے حملہ کر دیا۔ حضرت امام حسنؓ مزاحمت کرتے ہوئے زخمی ہو گئے۔ محمد بن ابی بکر (پروردہ حضرت علی) نے آپ کی ڈاڑھی پکڑ کر کھینچی۔ حضرت عثمان نے فرمایا: کہ بھتیجے اگر تمہارے باپ زندہ ہوتے تو وہ اس فعل کو نا پسند کرتے۔ کنانہ بن بشر نے آپ کی پیشانی پر زور سے لوہے کی سلاخ ماری جس سے آپ گر پڑے اور زبان سے یہ کلمات نکلے: بسم اللہ وتوکلت علی اللہ – سواد بن حمران نے دوسری ضرب لگائی جس سے خون کا فوّارہ جاری ہو گیا۔

عمرو بن الحمق نے سینہ پر چڑھ کر نیزوں کے پیہم نووار کیے۔ ایک ازلی شقی نے بڑھ کہ تلوار کا ایسا وار کیا جس سے ذوالنورین کی شمع حیات بجھ گئی (البدایہ والنہایہ) انا للہ وانا الیہ راجعون شہادت کے وقت حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ قرآن مجید کی تلاوت فرما رہے تھے اور اس خونِ ناحق سے جو آیت رنگین ہوئی وہ یہ تھی: فَسَیَکْفِیْکَہُمُ اللّہُ وَہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْم (سورہ بقرہ) تمہارے لیے اللہ تعالیٰ کافی ہے اور اللہ تعالیٰ خوب سننے والا جاننے والا ہے۔ اس جانکاہ حادثہ میں آپ کی اہلیہ محترمہ کی انگلیاں بھی کٹ گئی تھیں۔ تین دن تک آپ کے جسد مبارک کو بلوائیوں نے دفن کرنے سے روکدیا اور ظلما شہید کرنے کے بعد انہوں نے آپ کا گھر بھی لوٹ لیا۔ آپ ؓ کی قبر انور روضۂ رسولؐ کے سامنے جنت البقیع میں ہے۔

حشرکے دن جو شخص جس حال میں شہید ہوا اسی حال میں اٹھے گا کوئی شہید احرام کی حالت میں اٹھے گا کوئی شہید سجدہ کی حالت میں اٹھے گا ۔ اورسلام ہوآپ کی عظمتوں پر اے عثمان کہ آپ میدان محشر میں اللہ کا کلام پڑتے ہوئے اٹھوگے ۔ اللہ کی بارگاہ میں دعاء ہے کہ ہمیں خلفائِ راشدین کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ سید المرسلینؐ۔
٭٭٭



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *