’بہار میں تعلیم، صحت اور روزگار کا بحران‘، کنہیا کمار کا خصوصی انٹرویو

سوال: یاترا کا نام ‘بہار جوڑو’ یاترا یا سیدھے سیدھے ‘روزگار دو’ یاترا بھی ہو سکتا تھا۔ اس کا نام ‘پالایَن روکو، نوکری دو’ یاترا کیوں رکھا؟

جواب: اس لیے کہ بہار سے جڑا ہر مسئلہ بالآخر پالاین سے ہی جڑا ہے۔ تعلیم کی بات کریں تو ریاست کا تاریخی پس منظر بہت شاندار ہے۔ بہار کو نالندہ یونیورسٹی پر فخر ہے، جو علم کا عالمی مرکز رہی ہے۔ جدید دور میں بھی 1907 میں قائم ہوئی پٹنہ یونیورسٹی سب سے قدیم جامعات میں شامل ہے۔ لیکن آج صورتحال یہ ہے کہ اسکول کی تعلیم کے لیے بھی طلبہ کو بہار سے باہر جانا پڑتا ہے۔

صحت کے معاملے میں بھی یہی حال ہے۔ یو پی اے حکومت نے پٹنہ میں ایمس کھولا تھا، لیکن بہار کے لوگ آج بھی علاج کے لیے دہلی ایمس کا رخ کرتے ہیں۔ تیسرا مسئلہ ہے روزگار کا۔ یہاں بے روزگاری کی شرح قومی اوسط سے زیادہ ہے۔ تربیت یافتہ مزدوروں کی قلت ہے، کیونکہ یہاں کے لوگ بہتر کمائی کے لیے ریاست سے باہر جا رہے ہیں۔ مزدوروں کو دوسری ریاستوں میں لے جانے کے لیے ‘شرم جیوی ایکسپریس’ تک چلتی ہے۔

پالاین روکنے اور لوگوں کو روزگار فراہم کرنے میں ناکام ڈبل انجن حکومت ہر تہوار پر فرقہ وارانہ تشدد کو ہوا دے رہی ہے۔ بہار کو نفرت کی آگ میں جھونکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اسی لیے ہم نے اپنی یاترا کا مرکز بہار سے ہونے والے پالاین کو بنایا۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *