تحریر:سید سرفراز احمد
سیاست ایک ایسا شعبہ ہے جس میں عوامی،مذہبی،ہی نہیں بلکہ ہر طرح کے شعبہ جات میں فریب سے کام لیا جاتا ہے۔ہمارے یہاں دو طرح کے سیاست داں پاۓ جاتے ہیں۔ ایک فرقہ پرست اور دوسرے موقع پرست، ان دونوں میں یہی فرق ہوتا ہے کہ فرقہ پرست سیاست داں ایک جمہوری اور سیکولر ملک میں ایک ہی مذہب کے گن گاتے ہیں۔چاہے اس کے لیئے جان کے لالے ہی کیوں نہ پڑجاۓ۔جس کو دستور کی صریح خلاف ورزی کہا جاسکتا ہے دوسری قسم کے سیاست داں موقع پرست ہوتے ہیں۔یہ سیاست داں سیکولرزم کا دم تو بھرتے ہیں لیکن کوئی بھی سیاسی موقع کو گنوانا نہیں چاہتے۔ جیسے ہی انھیں لوہا گرم نظر آتا ہے تو یہ فوری ہتھوڑا مارنے کا ہنر جانتے ہیں۔ یعنی ایسے سیاست داں موقع پر چوکا بہترین طریقے سے لگاتے ہیں۔اب اگر فرقہ پرست سیاست داں فرقہ پرستی کے ساتھ ساتھ موقع پرستی میں بھی ہاتھ صاف کرلیں تو اسے کہا جاتا ہے سیاسی منافقت،جو ملک میں وقفہ وقفہ سے نظر آتی رہتی ہے۔ لیکن اس وقت ہر کوئی انگشت بدنداں ہیں کہ آخر فرقہ پرستی کی سیاست کا دم بھرنے والی بھاجپا غریب مسلمانوں میں سوغات تقسیم کرنے پر کیسے راضی ہوگئی؟اور یہ ہمدردی کیسے ہوگئی؟
جی ہاں!قارئین کو میں بتاتا چلوں کہ ہمارے ملک کی موجودہ سرکار یعنی این ڈے اے نے 25 مارچ جو اس وقت ہم رمضان کے آخری عشرے کے آخری ایام سے گذر رہے ہیں۔ اچانک سے مرکزی سرکار کی جانب سے اعلان ہوتا ہے۔ کہ ملک کے غریب مسلمانوں کے لیئے عیدالفطر کے موقع پر سوغات مودی ابھیان کے نام سے 32 لاکھ عید کٹس کے تحائف تقسیم کیئے جائیں گے۔جس میں خشک میوے،سیوئیاں،کپڑے وغیرہ رہیں گے شائد یہ پڑھ کر آپ بھی حیران ہورہے ہونگے۔ کیونکہ جب ہم نے بھی یہ اعلان سنا تو یقین نہ آیا پھر بھی جھجھکتے ہوۓ یقین کرنا پڑا۔ایسا لگا کہ کسی نے آدھا سچ دکھایا ہے اور آدھا سچ چھپایا ہے لیکن بہر حال سوغات مودی بظاہر ایک فریب نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے۔لیکن اس حقیقیت میں کتنا فریب ہے وہ بھی بہت جلد منظر عام پر آجاۓ گا۔
لیکن سوغات مودی پر انگشت نمائی بڑی شدت کے ساتھ کی جارہی ہے۔ اور یہ انگشت نمائی حق بجانب بھی ہے۔ چونکہ مودی سرکار نے پچھلے دس سال بناء اتحاد کے اس ملک پر حکمرانی کی۔ اور ان دس سالوں میں نہ کبھی مسلمان یاد آیا نہ مسلمانوں کی کوئی پریشانی نظر آئی۔ بلکہ الٹا مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ گراۓ گئے۔ پھر اچانک ہمارے وزیر اعظم کو گیارویں سال کے اختتام پر مسلمانوں کی یاد کیوں ستانے لگی؟سوال یہ ہے کہ کیا ملک کا مسلمان اس ڈھونگ کو قبول کرے گا؟جن حکمرانوں کے ظلم و ستم کو جھیلتے ہوۓ مسلمان گیارہ سال مکمل کررہے ہیں کیا وہ ان سب کو فراموش کرتے ہوۓ ایسے معمولی تحائف قبول کرنا گوارا سمجھے گا؟شائد ان حکمرانوں کو اس بات کا علم نہ ہو کہ اس رمضان المبارک میں کوئی بھی مسلمان ایسا نہیں ہوتا کہ وہ بناء خوشیوں کے عید نہ منائیں۔شائد انھیں یہ بھی پتہ نہیں کہ اس دونوں جہاں کے خالق و رازق نے اس زمین پر خصوصیت کے ساتھ اس ماہ مبارک میں ہر غریب و مستحق مسلمان کا انتظام کچھ اس طرح کیا کہ کسی کو بھی عید کے لیئے سوغات مودی کی ضرورت نہیں ہوگی۔ چونکہ ہر صاحب استطاعت مسلمان اس ماہ مبارک میں اپنی ذکوة ،صدقات،فطرے اور عطیات کے ذریعہ ہر مستحق کو اپنی عید کی خوشیوں میں شامل کرلیتے ہیں۔ یہ ایک بہترین نظام ہے جو دین اسلام نے ہمیں عطا کیا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر مودی سرکار کو غریب مسلمانوں میں ریوڑیاں تقسیم کرنے کی نوبت کیوں آئی؟جب کہ وزیر اعظم نے خود سال 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے جلسہ عام میں مسسلمانوں کو زائد بچہ پیدا کرنے والے اور درانداز کہا تھا۔آسام میں این آر سی کے ذریعہ غریب مسلمانوں کو حراستی کیمپ میں قید کیا گیا۔اتراکھنڈ میں غریبوں کی بستیوں کو اجاڑ دیا گیا۔شائد وزیراعظم کی نظر میں ان سب سے اہم سوغات مودی کے تحائف ذیادہ اہم ہے۔ بیش تر سیاسی مبصرین نے اس سوال کا جواب دیتے ہوۓ لکھا کہ سال 2025 کے اختتام میں بہار کے اسمبلی انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ شائد اسی مناسبت سے اقلیتوں کو اپنا ووٹ بینک بنانے کے لیئے سوغات مودی تقسیم کیئے جارہے ہیں۔ لیکن جہاں تک ہمارا تجزیہ ہے سوغات مودی کے پیچھے دو بیساکھیوں کا منصوبہ نظر آرہا ہے۔ ورنہ آپ غور کریں گیارہ سال ہونے جارہے ہیں کبھی بھاجپا نے ملک کی اقلیتوں کے لیئے کوئی ایک ادنیٰ سا کام بھی ڈھنگ سے نہیں کیا ہے۔ بلکہ مسلمانوں کو ہراساں کرنے کے لیئے جتنا زور لگایا جاسکتا ہے اتنا لگایا گیا۔ہمارا تجزیہ یہی کہتا ہے کہ نتیش کمار بہار میں اپنی سیاسی ساکھ کو لیکر بہت پریشان ہیں۔ اِدھر چلا میں اُدھر چلا کی سیاست میں وہ اپنا دماغی توازن کھورہے ہیں۔ اسی خوف کی وجہ سے اور اقلیتوں کے ووٹ بٹورنے کے لیئے انھوں نے شائد بھاجپا سے اس طرح کی ابھیان کا آغاز کرنے کی طرف متوجہ کروایا ہوگا۔
سوغات مودی بھاجپا کا صرف ایک سیاسی ڈھونگ ہے۔جو صرف اپنی بیساکھیوں کے دباؤ میں اٹھا گیا قدم ہے۔ ورنہ ایسی سوغات کا اعلان کبھی نہ ہوتا۔یہ منافقت کا گہرا رنگ بھی ہے۔کیونکہ این ڈی اے سرکار ایک طرف مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑ رہی ہے۔ اور دوسری طرف سوغات تقسیم کرکے زخموں کو کریدنا چاہتی ہے۔ لازمی ہے کہ اس طرح کی ابھیان سے مسلم متوسط طبقہ یا شعوری مسلمان فاصلہ بناۓ رکھیں گے۔ لیکن ممکن ہے غریب طبقہ اس جانب پر کشش بن سکتا ہے۔اس طرح این ڈی اے سرکار مسلمانوں میں رخنہ ڈالنے کا کام کرنا چاہتی ہے۔یہ ایک نئی سیاسی چال ہے جس کی طرف بھاجپا اپنا قدم بڑھا رہی ہے۔بھاجپا شائد فرقہ پرستی کی سیاست کے ساتھ ساتھ موقع پرستی کی بھی سیاست کا سہارا لینا چاہتی ہے۔تاکہ اقلیتوں کے ووٹ بھی اس کو حاصل ہوسکے۔لیکن اب مسلمانوں پر اور سیکولر پارٹیوں پر یہ زائد زمہ داری عائد ہوجاتی ہے کہ این ڈی اے یا بھاجپا کو ایسی موقع پرست سیاست میں کامیاب نہ ہونے دیں۔بلکہ اس کے لیئے مناسب اقدامات بھی کیئے جائیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا سوغات مودی سے مسلمانوں کے مسائل حل ہوجائیں گے؟کیا سوغات مودی سے ملک میں پھیل رہی نفرت ختم ہوجاۓ گی؟مودی سرکار اگر مسلمانوں میں واقعی سوغات تقسیم کرنا چاہتی ہے یا مسلمانوں کی سچی خیرا خواہ بننا چاہتی ہے تو مسلمانوں کی شریعت پر حملے کرنا بند کردیں۔وقف ترمیمی قانون کو نافذ نہ کریں۔مسجدوں میں مندروں کو تلاش کرنے کی مہم بند کریں۔مسلمانوں سے مذہبی منافرت کو ختم کریں۔نفرت پھیلانے والوں پر سخت قانونی کاروائی کریں۔بے روزگاری کو ختم کریں۔مہنگائی کو کم کریں۔ملک میں امن و امان کی بحالی کے لیئے نظم و نسق کو بہتر بنائیں۔بلڈوزر کا عتاب بند کریں۔مدارس اسلامیہ کے ساتھ کھلواڑ بند کریں۔مغلیہ سلطنت کی تاریخ کو حقیقی ڈھنگ سے پیش کریں۔یہ وہ تمام سوغات ہیں جو ایک ملک کو خوش حالی کی طرف آگے لے جاسکتی ہیں۔لیکن یہ سب مودی سرکار کے ایجنڈے کے مخالف ہیں اگر بھاجپا یہ سب کرے گی تو اکثریتی طبقے کے ووٹوں سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ لہذا اس ملک کا مسلمان ان کی سیاست کی سرخ لکیر کی طرح ہے۔ اگر یہ لفظ مسلمان کا نام لینا بند کردیں گے تو اس دن سے بھاجپا کے زوال کا آغاز ہوجاۓ گا۔
سوغات مودی سیاسی ریوڑیوں کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔یہ تو الٹا زخموں پر نمک ڈالنے کےمترادف ہے۔ کیونکہ بہار میں نتیش کمار اور آندھرا پردیش میں چندرابابو نائیڈو کی دعوت افطار کا مسلمانوں نے پوری طرح سے بائیکاٹ کیا ہے۔ شائد اسی کھلبلی سے نتیش کی رات کی نیندیں حرام ہوچکی ہے۔ اور ان کے قدم ڈگمگارہے ہیں۔اسی لیئے شائد سوغات مودی کے اس سیاسی پینترے کو آزمایا جارہا ہے۔یہ غریب مسلمانوں کا دل موہ لینے کا ایک حربہ ہے۔لیکن ہماری زمہ داری بنتی ہے کہ ہم انھیں اس حربے میں کامیاب نہ ہونے دیں۔ ہماری یہ زمہ داری بنتی ہے کہ مودی سرکار کے ماضی کے ظلم و ستم کو غریب و لاشعوری مسلمانوں میں یاد دہانی کروائیں۔کہ مودی سرکار نے اپنے پچھلے دس سال میں جس طرح سے اس ملک کے مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا ہے۔کیا اس معمولی سوغات مودی کے ذریعہ مسلمان اس ظلم و جبر کو یوں ہی فراموش کردیں گے؟حقیقت تو یہ ہے کہ مودی سرکار منافقت کے اعلیٰ درجہ کا مظاہرہ کررہی ہے۔اس منافقت کو ملک کے ہر مسلمان کو اچھی طرح سے سمجھنا ہوگا ورنہ یہ مسلمانوں میں ہی دراڑیں ڈال کر اپنی نکمی سیاست میں کامیاب ہوجائیں گے۔آپ اور ہم دیکھیں گے کہ کچھ فرضی مسلمانوں کو ٹوپی لگاکر سوغات مودی کٹس تقسیم کرتے ہوۓ دکھایا جاۓ گا۔ اور گودی میڈیا اس کی خوب تشہیر بھی کرے گی۔ حتیٰ کہ دنیا کے مسلم ممالک کو بھی یہ بتانے کی کوشش کی جاۓ گی کہ مودی سرکار مسلمانوں سے کس طرح کی ہمدردی رکھتی ہے۔لیکن دنیا کو بظاہر یہ سوغات نظر آئیں گی۔ لیکن حقیقی طور پر یہ منافقت کا اصلی چہرہ ہے۔ جس کا کام یہی ہوتا ہے کہ ہوا جدھر کی چلتی ہو وہ اپنا رخ اس جانب موڑلیتا ہے۔مودی سرکار اور بیساکھیوں کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیئے۔ کہ مسلمانوں کو حقیقی سوغات تب ہی ملے گی جب تک وہ مسلمانوں کے خلاف وقف ترمیمی بل سے دست بردار نہ ہوجائیں۔شاعرہ کومل جوئیہ نے کیا خوب کہا ہے؎
منسوب چراغوں سے طرف دار ہوا کے
تم لوگ منافق ہو منافق بھی بلا کے