
تحریر:جاوید اختر بھارتی
رمضان مبارک کا مہینہ خیر وبرکت کا مہینہ ہے ، رحمت و مغفرت کا مہینہ ہے ، جہنم سے آزادی کا مہینہ ہے ، خوش مزاجی و خوش دلی کا مہینہ ہے ، بھائی چارہ بڑھانے کا مہینہ ہے ، امیر و غریب کی کھائی کو مٹانے کا مہینہ ہے ، ایک دوسرے کو گلے لگانے کا مہینہ ہے ، خود بھوکے رہ کر دوسروں کی تنگ دستی ، خستہ حالی ، پریشانی ، غربت ، مفلسی اور ان کی کمزوری کو احساس کرنے کا مہینہ ہے،، مگر یہ سب کچھ اس وقت احساس ہوگا جب ہم ریاکاری کو ٹھوکر مارکر ، نمائش کو بالائے طاق رکھ کر صرف اور صرف اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے روزہ رکھیں گے ،، یاد رکھیں روزہ صرف بھوکے رہنے کا نام نہیں ہے بلکہ جسم کے ایک ایک اعضاء کا روزہ رکھنا ہے کیونکہ پورا جسم اللہ کی نعمت ہے،، سب سے پہلے سر کا روزہ یہ ہے کہ جب بھی سر جھکے تو اللہ کے حضور میں سر جھکے گردن کٹ جائے لیکن غیراللہ کی بارگاہ میں سر نہ جھکے،، آنکھوں سے وہ مناظر نہ دیکھے جس میں عریانیت ہو یہ آنکھ کا روزہ ہے،، تلخ کلامی اور غیبت چغلی سے پرہیز کرنا یہ زبان کا روزہ ہے،، دل میں خوف خدا اور محبت رسول کا چراغ روشن رکھنا یہ دل کا روزہ ہے ،، کسی کا گلہ دبانے کے لئے اور کسی کمزور انسان پر ہاتھ نہ اٹھاکر راہ سخاوت میں ہاتھوں کو بلند کرنا یہ ہاتھوں کا روزہ ہے ،،
ہر سال ماہ رمضان آتا ہے اور گذر جاتا ہے اور یہ پیغام بھی دیتا ہے کہ جب تم ایک مہینہ کے لئے پرہیزگاری کا راستہ اختیار کرتے ہو تو روزانہ بعد نمازِ ظُہر سے وقت افطار اور بعد افطار تک اللہ رب العالمین کی خیر وبرکت کی جھما جھم برسات اپنی آنکہوں سے دیکھتے ہو اور اللہ تبارک وتعالیٰ کا کھلا ہوا خزانہ بھی دیکھتے ہو کہ ہر شخص مختلف اقسام کے لوازمات دسترخوان پر سجاتا ہے اور رمضان مبارک کے مہینے کے بعد تمہارا جو حال رہتا ہے ذرا ایک مہینے تک روزانہ ایسے ہی انتظام کرو اور دسترخوان سجاکر دکھاؤ ؟ یقیناً اللہ اپنے وعدوں میں سچا ہے یعنی رمضان مبارک کے مہینے کے بعد بھی تمہارے اندر تقوی اور پرہیزگاری اور اللہ کا خوف اور عبادت و ریاضت کا شوق و ذوق و عمل برقرار رہتا تو ایسے ہی رحمتوں برکتوں اور نعمتوں کی برسات ہوتی مگر افسوس کی بات ہے کہ ایک مہینہ روزہ رکھ کر اور صوم و صلاۃ کی پابندیوں کے بعد بھی مسلمانوں پر رمضان مبارک کے اثرات مرتب نہیں ہوتے جبکہ رمضان کے بعد بھی مساجد سے اذان کے کلمات بلند ہوتے ہیں ، حی عل الصلوٰۃ و حی عل الفلاح کی صدائیں بلند ہوتی ہیں ، مساجد میں قرآن رکھے رہتے ہیں ، محراب میں مصلیٰ بچھا ہوتا ہے ،چٹاییاں بچھی رہتی ہیں لیکن مسلمانوں کو احساس نہیں ہوتا،، ایک مہینہ رمضان کا روزہ رکھ کر بھی اس کے اثرات مرتب نہ ہوں تو پھر یہی کہا جاسکتاہے کہ ہم نے سحری و افطار کو بھی ایک رسم ایک نمائش اور سیر وتفریح کا سامان بنا کر رکھ دیا دن بھر بھوکے رہ کر روزہ دار ہونے کا بس ٹائٹل لگا لیا ،، اسی لئے جب ( زید) نے کہا کہ رمضان کا دو عشرہ گزرنے کے بعد بھی مجھے روزے کا، بھوک پیاس کا ، مزدوری و سرمایا داری کا ، مجبوری و آسودگی کا ، امیری، غریبی، یتیمی ، مسکینی، مفلسی کا کچھ احساس ہی نہیں ہوا تو فوراً ( بکر) نے کہا کہ تمہارا روزہ ہی نہیں ہوا کیونکہ روزے کی حالت میں امیروں کو غریبی کا، سرمایا داروں کو مزدوری کا، بھوک و پیاس کا
دولت کی فراوانی اور فٹپاتھ پر رات کا گزر بسر کرنے والوں کی زندگی کا احساس کرنا اور احساس ہونا ضروری ہے اسی وجہ سے رمضان کے مہینے کو ماہ تربیت ، ماہ عمل ، ماہ محاسبہ ، ماہ احساس اور ماہ حساب قرار دیا گیا ہے تاکہ ہم نے گیارہ مہینے تک کیا کیا ہے رمضان کے مہینے میں سب جمع کریں کتنی غلطیاں ہوئی ہیں ان غلطیوں کی اس مہینے میں سربسجود ہو کر رب ذوالجلال سے معافی مانگیں اس مہینے کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رمضان کا روزہ فرض ہے اور اسلام کا رکن ہے ، اس میں نماز بھی پڑھنی ہے چھوٹ نہیں ہے تو نماز بھی فرض ہے اور اسلام کا رکن ہے ، اس مہینے میں زکاۃ بھی ادا کی جاتی ہے تو زکاۃ بھی مالک نصاب کے لئے ادا کرنا فرض ہے اور یہ بھی اسلام کا رکن ہے اسلام کے پانچ ارکان میں سے تین رکن تو اسی مہینے کی خوبصورتی میں چار چاند لگائے ہوئے ہیں ،، پھر بھی آج ہم کسی کو زکاۃ دیتے ہیں تو اگلے سال وہ خود زکاۃ دینے کے قابل نہیں ہوتا جبکہ حکم شرع تو یہی ہے کہ زکاۃ اس انداز سے ادا کیا جائے کہ جسے دیا جائے تو ایک سال میں وہ زکاۃ دینے کے قابل بن جائے مگر آج تو جس طرح زکاۃ کی رقم تقسیم کی جاتی ہے اس سے گداگری کو فروغ مل رہا ہے ، بھیک مانگنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے حتیٰ کہ غیر مسلم بھی مسلمانوں جیسا حلیہ اختیار کرکے بھیک مانگنے لگے جبکہ آج سے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایک گاؤں ایک قصبے کی زکاۃ کی رقم کو اکٹھا کیا جائے تو کسی بے گھر کا گھر تعمیر ہوسکتا ہے ، کسی غریب کی بیٹی کا ہاتھ پیلا ہوسکتاہے ، کسی ایک دو بے روزگاروں کو دکان کھول کر کام پر لگایا جاسکتا ہے ہر گاؤں میں دوچار بچوں کی تعلیم کا خرچ اٹھایا جاسکتا ہے اور معاشرے کو تعلیم یافتہ بنایا جاسکتا ہے ،،
اس طرح غربت کا خاتمہ ہوسکتاہے اور حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے دور حکومت میں غربت کا خاتمہ ہوگیا تھا تمام اسلامی سلطنتوں اور ریاستوں میں کوئی شخص زکاۃ کا مستحق نہیں تھا یہاں تک کہ زکاۃ کی رقم سے اناج خرید کر چرند و پرند کے لئے پہاڑوں پر ڈال دیا گیا آج تو مشاہدے میں ایسی بات اور ایسا رویہ و نظریہ اور طریقہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ زکاۃ کی رقم بھی مخصوص انداز میں اس کو دیا جاتا ہے جس سے اپنا ذاتی مفاد جڑا ہوتا ہے یاد رکھیں کہ زکاۃ کی رقم تقسیم کرنے میں خاندان اور رشتہ داری اور قریبی تعلقات کو ترجیح ضرور دی گئی ہے لیکن مفاد پرستی کو ترجیح نہیں دی گئی ہے اور زکاۃ آپ نے دیا ہے تو اتنا ہی کیا ہے کہ اپنے تربوز کا چھلکا اتار کر پھینک دیا ، کیلے کا چھلکا اتار کر پھینک دیا اصل مال تو چھلکے کے اندر ہے وہ تو آپ ہی نے استعمال کیا اب اس میں سے دیں تو اور بات ہے ،، یہ بھی ایک بہت بڑا سوال ہے کہ اسلام میں زکاۃ کا نظام ہے پھر بھی غربت کا خاتمہ کیوں نہیں ہوتا مولانا ولی رحمانی نے ایک تقریر میں کہا کہ ہندوستان میں مسلمان بیس لاکھ کڑور روپیہ ہر سال زکاۃ کی شکل میں نکالتا ہے اس کے باوجود بھی ملک میں ہر چوتھا مسلمان یاتو بھکاری ہے یا پھر غریب ہے آخر کیوں ؟ جواب تو یہی ہے کہ زکاۃ دینے والے مسلمان تو ہیں مگر زکاۃ لینے والے مسلمان پوری طرح ایمان دار نہیں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اب تو بھیک مانگنے اور منگوانے کا کاروبار تک ہونے لگا جو کہ شرم سے ڈوب مرنے کی بات ہے ،، اللہ رحم کرے ،،
اے مسلمانوں ہم رمضان کے مہینے میں جہاں بہت ساری دعائیں کرتے ہیں وہیں یہ بھی دعا کرنا چاہئے کہ اے رب ذوالجلال ہمیں جھوٹ بولنے سے پرہیز کرنے کی توفیق عطا فرما اور رمضان کے بعد بھی ہمیں ذکر و اذکار ، عبادت و ریاضت اور کار خیر کی توفیق عطا فرما آمین یا رب العالمین –
++++++++++++++++++++++++++++++
جاوید اختر بھارتی (رکن مجلس شوریٰ جامعہ فیض العلوم ) محمدآباد گوہنہ ضلع مئ
و یو پی