شبِ قدر: برکتوں اور رحمتوں سے معمور ایک عظیم رات

تحریر: محمد فداء المصطفیٰ قادری

رابطہ نمبر: 9037099731

دارالہدی اسلامک یونیورسٹی

شبِ قدر: برکتوں اور رحمتوں سے معمور ایک عظیم رات

دینِ اسلام میں اکثر اعمال کے پیچھے کسی نہ کسی نیک بندے کی یاد موجود مقصود ہے جیسے عرفات کے میدان میں حج کا فریضہ حضرت آدم و حوا علیہما السلام کی یادگار ہیں۔ قربانی کا نیک عمل حضرت ابراہیم و اسمعیل علیہ السلام کی سنت ہے۔ صفا و مروہ کی سعی ، حضرت سیدہ ہاجرہ رضی اللہ تعالی عنہا کا دونوں پہاڑوں کے درمیان دوڑنے کی یاد کو باقی رکھتا ہے۔ اس طرح ہمارے پیارے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم رمضان شریف کے مہینے میں کچھ دن کھانے، پینے سے پر ہیز کرتے تھے یعنی ہمارے حضور سراپا نور مصطفی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلّم نے رمضان شریف میں بھوکے اور پیاسے رہنا پسند فرمایا تو اللہ تعالیٰ نے بھی روزے کے لئے ماہ رمضان شریف کو پسند فرمالیا اور پورے رمضان شریف کے روزے ایمان والوں پر فرض کر دیئے تا کہ میرے حبیب ، کونین کے طبیب مصطفی جان رحمت صلی الہ تعالی علیہ والہ وسلم کی یادگار باقی رہے اور میرے محبوب مصطفی کریم صلی للہ تعالی علیہ والہ سلم کی سنت قائم رہے۔

 

اللہ تعالیٰ کو اپنے محبوب کی سنت اتنی پسند آئی کہ جو بھی اس پر عمل کرے، اس کے لیے جنت کی بشارت دی گئی۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے: “من أحب سنتي فقد أحبني ومن أحبني كان معي في الجنه” ترجمہ: “جس نے میری سنت سے محبت کی، اس نے مجھ سے محبت کی، اور جس نے مجھ سے محبت کی، وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔” (سنن ترمذی)

 

شبِ قدر اسی مبارک مہینے کی وہ رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر قرار دی گئی۔ یہ رحمت، مغفرت اور بخشش کی رات ہے، جس میں اللہ تعالیٰ کی رحمتیں موسلا دھار بارش کی طرح برستی ہیں۔ اس رات میں کی جانے والی عبادات، دعائیں اور اذکار، انسان کی تقدیر بدلنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ جو شخص اس رات کی عظمت کو جان لیتا ہے اور خلوصِ دل سے عبادت کرتا ہے، وہ دنیا و آخرت میں کامیاب ہو جاتا ہے۔

 

تمام علمائے اہلِ سنت کا اس بات پر اجماع ہے کہ شبِ قدر رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں (21ویں، 23ویں، 25ویں، 27ویں اور 29ویں) میں سے ایک بابرکت رات ہے، جس کی فضیلت قرآن کریم میں بیان کی گئی ہے۔ سورۂ قدر میں اللہ تعالیٰ نے اس رات کی عظمت کو واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ اس رات کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے۔ یہ رات رحمتوں، مغفرتوں اور برکتوں سے معمور ہے، جس میں فرشتے زمین پر نازل ہوتے ہیں اور رحمتِ الٰہی کی خاص بارش برستی ہے۔

 

حضرت عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے سورۂ قدر کے نزول کا پسِ منظر یوں بیان کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت اور گزشتہ امتوں کی عمروں کا موازنہ فرمایا تو یہ حقیقت سامنے آئی کہ پچھلی امتوں کے افراد طویل عمر پاتے تھے، جبکہ امتِ محمدیہ کی عمریں نسبتاً کم ہیں۔ اس پر رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خیال آیا کہ جب پچھلی امتوں کی زندگیاں طویل تھیں تو لازمی طور پر ان کی نیکیاں بھی زیادہ ہوں گی، جبکہ میری امت کے افراد کم عمر ہونے کی وجہ سے اتنی نیکیاں حاصل نہیں کر پائیں گے۔ یہ خیال آتے ہی سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور پر رنج و غم کے آثار ظاہر ہوئے، کیونکہ آپ اپنی امت کی بھلائی اور ان کی آخرت کی کامیابی کے لیے ہمیشہ فکر مند رہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ غمگین ہونا پسند نہ آیا، چنانچہ اس کی رحمت جوش میں آئی اور سورۂ قدر نازل فرما کر امتِ محمدیہ کو شبِ قدر کی عظیم نعمت عطا کی گئی۔

 

اللہ تعالیٰ نے اس ایک رات کو اتنی برکتوں سے نوازا کہ اگر کوئی شخص اس میں عبادت کر لے، تو گویا اس نے ہزار مہینوں تک مسلسل عبادت کرنے کا شرف حاصل کر لیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص انعام ہے، جو صرف امتِ محمدیہ کے حصے میں آیا، تاکہ عمر کی کمی نیکیوں کی کمی کا سبب نہ بنے اور امتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی پہلے لوگوں کی طرح زیادہ سے زیادہ اجر و ثواب حاصل کر سکے۔ پس جو شخص اس رات کو پانے میں کامیاب ہو گیا اور اس میں عبادت، توبہ، ذکر و اذکار، درود و سلام اور قرآن کی تلاوت میں مشغول رہا، وہ یقینی طور پر اپنے رب کی بے شمار رحمتوں کا مستحق بن گیا۔ یہی وہ عظیم رات ہے، جس میں تقدیریں لکھی جاتی ہیں، گناہگاروں کی بخشش ہوتی ہے، اور عبادات کا بے پناہ اجر عطا کیا جاتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اس بابرکت رات کو ضائع نہ کریں، بلکہ اسے مغفرت اور جنت کے حصول کا ذریعہ بنائیں۔

 

اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مقدس میں شبِ قدر کی عظمت کو واضح کرتے ہوئے فرمایا: “بے شک ہم نے اسے شبِ قدر میں اتارا، اور تم کیا جانو کہ شبِ قدر کیا ہے؟ شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس میں فرشتے اور جبرائیل اپنے رب کے حکم سے ہر کام کے لیے اترتے ہیں، یہ سلامتی والی رات ہے جو طلوعِ فجر تک رہتی ہے۔” (سورۃ القدر، کنز الایمان)۔

 

یہ وہ بابرکت رات ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے کلامِ مقدس کو لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا پر اتارا، جس کے بعد رفتہ رفتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کی صورت میں نازل ہوا۔ یہی وہ رات ہے جو عبادت و ریاضت کے لحاظ سے ہزار مہینوں سے افضل قرار دی گئی ہے۔ اس میں کی جانے والی دعا، ذکر و اذکار، اور تلاوتِ قرآن بے حد اجر و ثواب کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔

 

شبِ قدر میں اللہ تعالیٰ کی خاص رحمتیں بندوں پر نازل ہوتی ہیں۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام، فرشتوں کی ایک عظیم جماعت کے ساتھ زمین پر اترتے ہیں اور ہر اس بندے کے حق میں دعا کرتے ہیں جو اس رات اللہ کے ذکر میں مشغول ہوتا ہے۔ وہ عبادت گزاروں پر سلامتی نازل کرتے ہیں اور ان کی دعاؤں کو قبولیت کی سند عطا کی جاتی ہے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: “جب شبِ قدر آتی ہے تو حضرت جبرائیل علیہ السلام فرشتوں کی جماعت کے ساتھ زمین پر نازل ہوتے ہیں اور ہر اس شخص پر رحمت بھیجتے ہیں جو کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کا ذکر کر رہا ہوتا ہے۔” (مشکوٰۃ المصابیح، بیہقی)۔

 

یہ رات مغفرت، رحمت اور نجات کی رات ہے۔ جو خوش نصیب اس رات کو پا لے اور اسے عبادت، توبہ، اور استغفار میں گزارے، وہ اللہ تعالیٰ کی بے شمار برکتوں اور عنایتوں کا مستحق بن جاتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اس مقدس رات کی قدر کریں، اسے ضائع نہ ہونے دیں، اور اپنی بخشش و نجات کا سامان کر لیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: “جو شخص شبِ قدر میں ایمان اور اخلاص کے ساتھ عبادت کرے، اس کے تمام گزشتہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔” (بخاری شریف، ج:1، ص:270)۔

 

یہی وہ بابرکت رات ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت کے تحت حضرت جبرائیل علیہ السلام فرشتوں کی جماعت کے ساتھ زمین پر نزول فرماتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما روایت کرتے ہیں کہ شبِ قدر کے موقع پر حضرت جبرائیل علیہ السلام ایک سبز جھنڈا لے کر آتے ہیں اور کعبہ شریف پر نصب کر دیتے ہیں۔ ان کے سو بازو ہیں، مگر اس رات وہ صرف دو بازو کھولتے ہیں، جو مشرق و مغرب تک پھیل جاتے ہیں۔ اس لمحے فرشتوں کو حکم دیا جاتا ہے کہ جو مسلمان عبادت میں مشغول ہو، قیام کر رہا ہو، تلاوت کر رہا ہو یا سجدے میں گرا ہو، اس سے مصافحہ کرو، اس پر سلامتی بھیجو اور اس کی دعاؤں پر آمین کہو۔

 

یہ سلسلہ طلوعِ فجر تک جاری رہتا ہے۔ جب صبح ہوتی ہے، تو حضرت جبرائیل علیہ السلام فرشتوں کو واپسی کا حکم دیتے ہیں۔ فرشتے اللہ تعالیٰ کے دربار میں عرض کرتے ہیں: “یا جبرائیل! اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا؟” حضرت جبرائیل علیہ السلام جواب دیتے ہیں: “اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے سب کو بخش دیا، سوائے چار بدبختوں کے۔” صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کیا: “یا رسول اللہ! وہ کون لوگ ہیں جنہیں شبِ قدر کی برکتوں سے محروم کر دیا جاتا ہے؟” آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: وہ شخص جو شراب نوشی کا عادی ہو۔ وہ نافرمان جو والدین کی عزت و اطاعت نہ کرے۔ وہ رشتہ داروں سے تعلق توڑنے والا جو قطع رحمی کرتا ہو اور وہ شخص جو دل میں کینہ اور دشمنی رکھتا ہو۔ (الترغیب والترھیب، کنز العمال، ج:8، ص:268)

 

یہ رات اللہ تعالیٰ کی جانب سے گناہوں کی معافی، رحمت اور بخشش کا نایاب موقع ہے۔ ہر وہ شخص جو اپنے رب کی طرف رجوع کرے، اخلاص کے ساتھ توبہ کرے اور عبادت میں مشغول ہو، وہ اللہ کی رضا حاصل کر سکتا ہے۔ مگر وہ لوگ جو حسد، قطع رحمی، والدین کی نافرمانی اور برائیوں میں مبتلا ہوں، انہیں اس رحمت سے محرومی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اس مقدس رات کی قدر کریں، دلوں کو بغض و کینہ سے پاک کریں، اور اللہ تعالیٰ سے اپنے تمام گناہوں کی معافی مانگ کر اپنی آخرت سنوار لیں۔

 

امیرالمومنین حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص رمضان کی ستائیسویں رات کو عبادت میں گزارے، وہ پوری زندگی کی عبادت سے زیادہ محبوب ہے۔ یہ رات اللہ کی رحمت کے نزول اور بندوں کی مغفرت کا ذریعہ ہے۔ حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ جو لوگ ضعیف اور کمزور ہیں، وہ شب بیداری کیسے کریں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ کسی چیز کا سہارا لے کر عبادت کریں، حتیٰ کہ کچھ لمحے بھی اپنے رب کے ذکر میں گزاریں، کیونکہ یہ رات قبولیتِ دعا کی رات ہے۔

 

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شبِ قدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ علمائے کرام نے اس رات کے تعین میں مختلف آراء پیش کی ہیں، جن میں سب سے زیادہ متفقہ قول یہ ہے کہ ستائیسویں شب ہی شبِ قدر ہے۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے قسم کھا کر فرمایا کہ شبِ قدر ستائیسویں شب کو ہی ہوتی ہے، اور یہ بھی فرمایا کہ اس کی نشانیاں اسی رات میں پائی جاتی ہیں۔

 

یہ رات اللہ تعالیٰ کی طرف سے امتِ مسلمہ کے لیے عظیم ترین عطیہ ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ جو شخص اس رات میں سورۃ القدر سات مرتبہ پڑھتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے ہر بلا اور مصیبت سے محفوظ فرما دیتا ہے اور ستر ہزار فرشتے اس کے لیے جنت کی دعا کرتے ہیں۔ یہ رات فرشتوں کے نزول اور حضرت جبرئیل علیہ السلام کے اہلِ ایمان سے مصافحہ کرنے کی رات ہے، جس میں وہ عبادت میں مشغول بندوں کی دعاؤں پر آمین کہتے ہیں۔

 

اس بابرکت رات میں اللہ تعالیٰ کی رحمت ہر سو نازل ہوتی ہے، مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اس رات کی برکتوں سے محروم رہ جاتے ہیں۔ احادیث میں ایسے لوگوں کی نشاندہی کی گئی ہے، جن میں زکوٰۃ نہ دینے والے، ناحق قتل کرنے والے، رشتہ داروں سے قطع تعلقی کرنے والے، فتنہ و فساد پھیلانے والے، دین کے اساتذہ کی بے ادبی کرنے والے، نماز میں سستی کرنے والے، اور بغض و حسد رکھنے والے شامل ہیں۔ ایسے افراد کو چاہیے کہ وہ سچی توبہ کریں تاکہ اللہ کی رحمت سے حصہ پائیں۔

 

یہ رات اللہ کی رحمت، مغفرت اور جہنم سے نجات کی رات ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس رات کو غنیمت جانیں، اپنے گناہوں پر ندامت کے آنسو بہائیں، والدین اور عزیز و اقارب سے معافی مانگیں، سود اور حرام کاموں سے توبہ کریں اور اپنے دلوں کو ہر قسم کی نفرت، بغض اور کدورت سے پاک کریں۔ یہ رات دل کی صفائی، اللہ کے حضور گڑگڑانے، دعا کرنے، درود و سلام پڑھنے، قرآن کریم کی تلاوت اور ذکر و اذکار میں گزارنے کی ہے۔

 

یہ رات وہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ اہلِ ایمان کے پاس جائیں، ان سے مصافحہ کریں اور ان کی دعاؤں پر آمین کہیں۔ ایسے میں ہمیں چاہیے کہ ہم اس رات میں اپنی دعاؤں کا دامن وسیع کریں، اپنے لیے، اپنے عزیزوں کے لیے، اور پوری امتِ مسلمہ کے لیے خیر و برکت کی دعائیں کریں۔ اللّٰہ تعالیٰ ہمیں اس مقدس رات کی برکتوں سے بھرپور فائدہ اٹھانے اور اپنے گناہوں کی معاف

ی مانگنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *