[]
لکھنو: سماج وادی پارٹی(ایس پی) کے لئے جمعہ کے دن خوشیاں ہی خوشیاں تھیں۔ اس نے ضمنی الیکشن میں اپنی گھوسی نشست برقرار رکھی۔ یہاں اس کا راست مقابلہ بی جے پی کے داراسنگھ چوہان سے تھا۔
سماج وادی پارٹی کی جیت اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اس الیکشن کو این ڈی اے اور انڈیا کے درمیان راست لڑائی کے طورپر دیکھا جارہا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی بہت زیادہ پراعتماد تھی۔
اس کی ساری قیادت بشمول چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ نے ضمنی الیکشن میں پرزور مہم چلائی تاہم سماج وادی پارٹی امیدوار سدھاکر سنگھ نے تیسرے راؤنڈ سے سبقت برقرار رکھی اور ہر راؤنڈ کے بعد ان کا مارجن بڑھتا چلاگیا۔ ضمنی الیکشن کی مہم کو 2024 کے لوک سبھا الیکشن کا ٹریلر کہا جارہا تھا۔
سماج وادی پارٹی قائد شیوپال سنگھ یادو نے گھوسی میں جیت پر اپنے پارٹی ورکرس کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ یہ بی جے پی انت (خاتمہ) کی شروعات ہے۔ پی ٹی آئی کے بموجب 6 ریاستوں میں 7 اسمبلی نشستوں کے نتائج کا جمعہ کے دن اعلان کردیا گیا۔ ضمنی الیکشن کے نتائج بی جے پی اور اپوزیشن اتحاد انڈیا کے لئے ملے جلے رہے۔
بھگوا جماعت نے 3 نشستیں جیتیں جبکہ کانگریس‘ جے ایم ایم‘ ٹی ایم سی اور سماج وادی پارٹی کے حصہ میں فی کس ایک نشست آئی۔ بی جے پی نے اتراکھنڈ میں باگیشور نشست اور تریپورہ میں دھان پور نشست برقرار رکھی۔ اس نے شمال مشرقی ریاست میں سی پی آئی ایم سے بوکسانگر کی نشست جیت لی۔
انڈیا اتحاد کی جماعتوں نے متحدہ الیکشن لڑا تھا لیکن مغربی بنگال کی دھوپ گری نشست ترنمول کانگریس سے جیت نہ سکی۔ اپوزیشن اتحاد کو جھارکھنڈ میں جیت ملی جہاں جے ایم ایم نے دھومری کی نشست برقرار رکھی اور اترپردیش کی گھوسی نشست پر سماج وادی پارٹی کا قبضہ برقرار رہا۔
سماج وادی پارٹی صدر اکھلیش یادو نے کہا کہ یہ مثبت سیاست کی جیت اور منفی فرقہ وارانہ سیاست کی ہار ہے۔ یہ انڈیا کی جیت کی طرف بھارت کی پیش قدمی ہے۔ ضمنی الیکشن 5 ستمبر کو ہوا تھا۔ کیرالا میں اپوزیشن کانگریس۔ یو ڈی ایف نے پتھوپلی اسمبلی نشست برقرار رکھی۔
اس کے امیدوار چندی اومن نے جو کانگریس کے قدآور رہنما آنجہانی اومن چنڈی کے لڑکے ہیں‘ برسراقتدار ایل ڈی ایف امیدوار جے سی تھامس کو شکست دی۔ کانگریس اور بایاں بازو‘ انڈیا اتحاد کا حصہ ہیں لیکن جنوبی ریاست میں یہ ایک دوسرے کے حریف ہیں۔
تریپورہ میں بی جے پی کے تفضل حسین نے بوکسا نگر نشست سے 30,237 ووٹوں کی اکثریت سے جیت حاصل کی۔ اس حلقہ میں اقلیتی رائے دہندوں کی تعداد تقریباً 66 فیصد ہے۔ انہیں 34,146ووٹ ملے جبکہ ان کے قریبی حریف میزان حسین (سی پی آئی ایم) کو صرف 3909ووٹ حاصل ہوئے۔