ریاست مدھیہ پردیش کے ایک مندر میں صرف اعلیٰ ذات کے لوگوں کو ہی داخلہ ملتا ہے۔ گورجھامر گاؤں کے مندر میں ایس سی-ایس ٹی اور او بی سی طبقہ کے لوگوں کا داخلہ ممنوع ہے۔


مندر کا گھنٹہ، تصویر آئی اے این ایس
ریاست مدھیہ پردیش کے ایک مندر میں صرف اعلیٰ ذات کے لوگوں کو ہی داخلہ ملتا ہے۔ معاملہ گورجھامر گاؤں کا ہے جہاں واقع ایک مندر میں ایس سی-ایس ٹی اور او بی سی طبقہ کے لوگوں کا داخلہ ممنوع ہے۔ اب یہ معاملہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ پہنچ گیا ہے۔ مندر میں نسلی امتیاز سے متعلق دائر مفاد عامہ کی عرضی پر ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس سریش کمار کیت اور جسٹس وویک جین کی ڈویژن بنچ نے اس معاملے میں سماعت کرتے ہوئے مسئلہ کا حل نکال دیا ہے۔
یہ عرضی ساگر ضلع کی دیوری تحصیل واقع گاؤں گورجھامر کے رہنے والے اتم سنگھ لودھی کے ذریعہ داخل کی گئی تھی۔ عرضی گزار کا الزام تھا کہ گاؤں میں واقع ’شری دتاترے مندر‘ میں صرف اعلیٰ ذات کے لوگوں کو ہی داخلے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ ایس سی-ایس ٹی اور او بی سی طبقہ کے لوگوں کو اس مندر میں داخلے سے روکا جا رہا ہے۔ عرضی گزار نے یہ بھی الزام لگایا کہ مندر پر لینڈ مافیا کا قبضہ ہے، جو اس امتیازی پالیسی کو نافذ کر رہے ہیں۔ اتم سنگھ لودھی نے دعویٰ کیا کہ مقامی انتظامیہ نے وہاں پولیس فورس تعینات کر دی ہے، جس کی وجہ سے پسماندہ طبقات کے لوگوں کے مذہبی جذبات مجروح ہو رہے ہیں۔
ہائی کورٹ نے سماعت کے دوران پایا کہ ماضی میں اس معاملے پر جمود برقرار رکھنے کا حکم دیا گیا تھا۔ ایسے میں عدالت نے عرضی پر سماعت کرتے ہوئے یہ واضح کر دیا کہ اگر جمود کے حکم کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو عرضی گزار کو توہین عدالت کی عرضی دائر کرنے کی آزادی ہوگی۔ مدھیہ پردیش کے دیہی علاقوں میں مندروں میں ذات پات کے امتیاز کو لے کر پہلے بھی تنازعات پیدا ہو چکے ہیں۔ تازہ معاملے میں عرضی گزار نے دعویٰ کیا تھا کہ مندر کو کچھ بااثر لوگوں نے اپنے قبضے میں لے لیا ہے اور وہاں سماجی ہم آہنگی کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ یہ معاملہ آئین میں دیے گئے مساوات کے حق (آرٹیکل 14) اور مذہبی آزادی (آرٹیکل 25) کی خلاف ورزی سے متعلق ہے۔
ہائی کورٹ نے اس عرضی پر براہ راست مداخلت کرنے کے بجائے ماضی میں دیے گئے جمود کے حکم کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایسے میں اب اگر مندر میں کسی بھی طبقہ کے لوگوں کے داخلے پر روک جاری رہتی ہے تو عرضی گزار عدالت میں توہین عدالت کی عرضی داخل کر سکتا ہے۔ اس معاملے میں عرضی گزار کی جانب سے سینئر وکیل رامیشور سنگھ ٹھاکر اور وکیل ونایک شاہ نے اپنے دلائل پیش کیے، جب کہ ریاستی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل ہرپریت روپراہ اور نجی غیر درخواست گزاروں کی جانب سے سینئر وکیل کشور شریواستو نے اپنے دلائل پیش کیے۔
عدالت کے فیصلے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ہائی کورٹ نے براہ راست مداخلت کرنے کے بجائے پہلے سے جاری کردہ احکامات کو نافذ کرنے پر زور دیا ہے۔ یہ معاملہ مذہبی مقامات میں ذات پات کے امتیاز اور سماجی عدم مساوات جیسے سنگین مسائل کو جنم دیتا ہے، جس پر آگے بھی قانونی لڑائی جاری رہ سکتی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔