50 سال سے سحری کیلئے جگانے والا ہندو خاندان

نئی دہلی ۔ رات کے پچھلے پہر جب پوری بستی نیند کی آغوش میں ہوتی ہے ایک باپ اور بیٹا ہاتھ میں ٹارچ اور ڈنڈا لیے گاؤں کی گلیوں میں نکل پڑتے ہیں۔ ان کا مقصد کوئی عام کام نہیں بلکہ پچاس سال سے چلی آ رہی ایک بے لوث روایت کو زندہ رکھنا ہے۔ گلاب یادو اور ان کا 12 سالہ بیٹا ابھشیک ہر سال رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں مسلمانوں کو سحری کے لیے بیدار کرتے ہیں وہ بھی بغیر کسی لالچ اور کسی صلہ کی تمنا کے۔

 

یہ کوڑیا گاؤں اعظم گڑھ کا وہ منفرد خاندان ہے جو پچھلی پانچ دہائیوں سے بھائی چارے اور محبت کی ایک مثال قائم کیے ہوئے ہے۔ یہ روایت 1975 میں گلاب یادو کے والد چرکٹ یادو نے شروع کی تھی اور اب گلاب یادو نے نہ صرف اسے اپنایا بلکہ اپنے بیٹے میں بھی اس جذبے کو منتقل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں گلاب یادو یاد کرتے ہیں

 

“جب میں چھوٹا تھا تو میرے والد رمضان میں گاؤں کے مسلمانوں کو جگانے نکلتے تھے۔ مجھے اس عمل کی اہمیت کا اندازہ نہیں تھا بس والد کے ساتھ چل پڑتا تھا۔ لیکن جیسے جیسے میں بڑا ہوا، میں نے سمجھا کہ یہ محض ایک رسم نہیں بلکہ اخوت، محبت اور ایک دوسرے کے لیے احساس کا مظہر ہے۔ اب جب والد اس دنیا میں نہیں رہے میں نے ان کی اس روایت کو اپنانے کا عہد کر لیا ہے۔”

 

یہ خاندان ہمیشہ مسلمانوں کو سحری کے لیے جگانے کا کام خالص جذبۂ انسانیت کے تحت انجام دیتا آیا ہے حالانکہ رمضان کے دوران عام طور پر مساجد سے لاؤڈ اسپیکر پر اعلانات کیے جاتے ہیں لیکن حالیہ برسوں میں سپریم کورٹ کی جانب سے لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر عائد پابندی کے بعد گلاب یادو کی یہ خدمت اور بھی اہم ہوگئی ہے۔

 

رات ایک بجے سے لے کر تین بجے تک گلاب یادو اور ابھشیک اپنے گاؤں کی تنگ گلیوں میں چلتے ہیں۔ مسلمانوں کے گھروں کے دروازوں پر دستک دیتے ہیں آوازیں لگاتے ہیں یہاں تک کہ وہ جاگ نہ جائیں آگے نہیں بڑھتے۔ ان کے ایک ہاتھ میں ٹارچ اور دوسرے ہاتھ میں آوارہ کتوں سے بچنے کے لیے ڈنڈا ہوتا ہے، دونوں باپ بیٹا یہ ذمہ داری پورے دل سے نبھاتے ہیں۔

گلاب یادو ایک یومیہ مزدور ہیں اور زیادہ تر وقت دہلی میں محنت مزدوری کرتے ہیں لیکن جب رمضان کا مقدس مہینہ آتا ہے وہ خاص طور پر اپنے گاؤں لوٹ آتے ہیں تاکہ اپنے والد کی پچاس سال پرانی روایت کو قائم رکھ سکیں۔ وہ کہتے ہیں“میرے بڑے بھائی نے بھی کئی سال تک یہ کام کیا لیکن جب ان کی بینائی کمزور ہوگئی تو میں نے یہ ذمہ داری خود سنبھال لی۔ اب میرا بیٹا ابھشیک بھی میرے ساتھ ہے اور مجھے امید ہے کہ یہ محبت اور خدمت کی روایت ہماری نسلوں تک چلتی رہے گی۔”

یہ روایت صرف مسلمانوں کو سحری کے لیے جگانے کی نہیں بلکہ ایک بڑے پیغام کی حامل ہے  محبت، بھائی چارہ اور یکجہتی کا پیغام ہے۔ گلاب یادو جیسے لوگ ثابت کرتے ہیں کہ مذہب صرف عقیدہ کی حد تک محدود نہیں بلکہ انسانیت کی خدمت ہی اصل عبادت ہے۔

 

ایسے لوگ اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہماری دنیا اب بھی اچھے لوگوں سے بھری ہوئی ہے جو خاموشی سے انسانیت کی خدمت میں مصروف ہیں۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *