ڈی ڈی اے سے جاری نوٹس کو لے کر لوگوں نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اس معاملے پر سپریم کورٹ نے سماعت کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ عدالت نے عرضی گزار سے دہلی ہائی کورٹ جانے کو کہا۔


قومی راجدھانی دہلی میں میور وہار-2 کے سنجے جھیل پارک میں واقع 3 مندروں کو توڑنے کے لیے بدھ (19 مارچ) کی رات درجنوں بلڈوزر پہنچے تھے۔ لیکن بی جے پی رکن اسمبلی رویندر نیگی اور لوگوں کے دباؤ کی وجہ سے دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ڈی ڈی اے) کو جھکنا پڑا اور کارروائی کو فی الحال روک دیا گیا ہے۔ جن 3 مندروں پر کارروائی ہونے والی تھی وہ کالی باڑی، امرناتھ اور بدری ناتھ مندر ہیں۔ ڈی ڈی اے کی دلیل ہے کہ مندر گرین بیلٹ میں بنایا گیا ہے، اس لیے اسے منہدم کیا جانا ہے۔ جب کہ پجاریوں کا کہنا ہے کہ مندر 40 سال پرانے ہیں اور رجسٹرڈ بھی ہیں۔ یہاں پر تمام پروگرام پُرامن طریقے سے ہوتے آئے ہیں۔ مندر کو ٹوٹنے سے بچانے میں بی جے پی رکن اسمبلی رویندر نیگی کا اہم کردار رہا۔ وہ پوری رات لوگوں کے ساتھ جائے وقوع پر کھڑے رہے۔
ہندی نیوز پورٹل ’ٹی وی 9 بھارت ورش‘ سے بات چیت میں رویندر نیگی نے کہا کہ ڈی ڈی اے تجاوزات ہٹانے کی مہم چلا رہی ہے۔ گرین بیلٹ میں جو بھی تجاوزات ہیں اس کو ہائی کورٹ کے حکم کے بعد ہٹایا جا رہا ہے۔ انہوں نے آگے کہا کہ مجھے معلوم پڑا کہ مندر توڑنے کے لیے ڈی ڈی اے کے ملازمین آ رہے ہیں۔ رات کو ہی 3 بجے پولیس پہنچ گئی تھی۔ 4 سے 5 ہزار پولیس والے تھے۔ ڈی ڈی اے کی بھی پوری ٹیم تھی اور قریب 50 بلڈوزر تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ بغیر نوٹس کے کیسے آ گئے تو انہوں نے کہا کہ ہم گرین بیلٹ میں نوٹس نہیں دیتے ہیں، ڈائریکٹ جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں انہوں نے کہا کہ اس کے بعد ہم نے براہ راست وزیر اعلیٰ دہلی ریکھا گپتا سے بات کی، انہیں پوری جانکاری دی۔ پھر وزیر اعلیٰ نے ایل جی وی کے سکسینہ سے بات کی۔ ہم رات 3 بجے سے لگے تھے اور 5.30 بجے کارروائی روک دی گئی، ساتھ ہی ہم نے مندر کو منہدم کرنے کے آرڈر پر بھی روک لگوا دی۔
دریں اثنا ڈی ڈی اے کی نوٹس کو لے کر لوگوں نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اس معاملے پر سپریم کورٹ نے سماعت کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ عدالت نے عرضی گزار سے دہلی ہائی کورٹ جانے کو کہا۔ وکیل وشنو شنکر جین نے اس پر کہا کہ دہلی کے ہی جہانگیر پوری میں ایک مسجد پر بلڈوزر کارروائی پر سپریم کورٹ نے فوری سماعت کی تھی اور کارروائی روک دی گئی تھی۔ اس پر جسٹس وکرم ناتھ نے دونوں معاملوں کو الگ بتایا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔