ہم خواب جی رہے ہیں، ایسا کبھی کسی ملک کے ساتھ نہیں ہوا: شہزادی لمیا بنت ماجد 

حیدرآباد ۔ کے این واصف

سعودی عرب کے “ویژن 2030” نے مملکت میں بڑی مثبت تبدیلیاں لائی ہیں خصوصاُ خواتین کو بااختیار بنانے میں اور اس کا سلسلہ جاری ہے۔ انگریزی روزنامہ “عرب نیوز” نے اس سلسلہ میں پرنسس لمبا بنت ماجد آل سعود کا ایک خصوصی انٹرویو شائع کیاہے۔ قارئین کی دلچسپی کے لئے اس کے کچھ اقتباسات پیش ہیں۔

 

سعودی عرب حالیہ برسوں میں تبدیلی کے سفر پر گامزن ہے۔ خاص طور پر جب بات خواتین کو بااختیار بنانے کی ہو تو تعلیم، کاروبار، افرادی قوّت اور سماجی زندگی میں انہیں وہ مواقع فراہم کیے جا رہے ہیں جن کا کبھی تصوّر بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔

 

عرب نیوز کے مطابق نیویارک میں اقوام متحدہ کے کمیشن آن دی اسٹیٹس آف ویمن (سی ایس ڈبلیو) کے اجلاس کے موقع پر، شہزادی لمیا بنت ماجد آل سعود نے صنفی مساوات کی جانب مملکت کی پیش رفت اور مستقبل کے لیے وژن کو سراہا۔رواں سال اقوام متحدہ کے کمیشن آن دی اسٹیٹس آف ویمن کے 69 ویں اجلاس کی صدارت سعودی عرب نے کی۔عرب نیوز کو ایک انٹرویو میں شہزادی لمیا بنت ماجد آل سعود نے سعودی خواتین کی نمایاں پیش رفت، درپیش چیلنجز اور ملک کے مستقبل کی تشکیل میں نوجوانوں خاص طور پر لڑکیوں کے اہم کردار پر روشنی ڈالی۔

 

انہوں نے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ اب ہماری صلاحیتیں دکھانے کا وقت ہے۔ شہزادی لمیا نے کہا کہ اس وقت سعودی خواتین کو تعلیم، روزگار اور بااختیار بنانے کے لیے جو مواقع میسر ہیں ان کی مثال نہیں ملتی۔ کیا آپ تصوّر کر سکتے ہیں کہ سعودی خواتین کے لیے تمام دروازے کُھلے ہیں، جس طرح تعاون کیا جا رہا ہے، جیسے اقدامات کیے جا رہے ہیں، تعلیم، تربیت اور ملازمتوں کے جیسےمواقع فراہم کیے جا رہے ہیں، ہر وہ چیز جو ہو رہی ہے کیا آپ اس کا تصوّر کر سکتے ہیں؟

 

ان کا کہنا تھا کہ یہ ہمارا وقت ہے۔ اب اس موقع کو گنوانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔شہزادی لمیا کمیشن آن دی اسٹیٹس آف ویمن کے اجلاس میں ایک پینل کا حصّہ تھیں جس کا عنوان تھ “وژن سے حقیقت تک: سعودی عرب کی خواتین کو بااختیار بنانے کی کہانی۔اس پلیٹ فارم سے مملکت کو گذشتہ دہائی کے دوران سعودی عرب میں رونما ہونے والی اہم تبدیلیوں کو سامنے لانے کا موقع ملا۔ ایک ایسا موقع جس کے بارے میں شہزادی لمیا نے کہا کہ یہ تاریخی ہے۔ جو ہوا وہ تاریخی ہے۔ یہ نہ صرف سعودی خواتین کے لیے بلکہ پوری مملکت کے لیے ایک اہم سنگِ میل ہے جو صنفی مساوات کو آگے بڑھانے اور تمام شعبوں میں خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے ملک کے عزم کو اُجاگر کرتا ہے۔

 

شہزادی لمیا بنت ماجد کے مطابق پینل میں بہت سی باصلاحیت خواتین کی موجودگی ان کی ترقی کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ حیران کن تھا۔ یہ تعداد ظاہر کرتی ہے کہ ہم اپنا راستہ منتخب کرنے کے لیے آزاد ہیںسعودی عرب کی جانب سے تیز ترین اقدامات کے باوجود انہوں نے اعتراف کیا کہ چیلنجز باقی ہیں۔ ایمانداری سے بتائیے، وہ ملک کہاں ہے جو 100 فیصد چیلنجز سے پاک ہے؟ ایسا کوئی نہیں ہے

 

ان کا کہنا تھا کہ یقینا، اب بھی چیلنجز ہیں۔ ہم اپنے 90 کی دہائی میں ایک نیا ملک تھے اور ہم نے یہ سب کچھ نو برسوں میں کیاشہزادی لمیا نے خواتین کے حقوق کے حوالے سے سعودی عرب اور دیگر خطوں کے درمیان فرق کو اُجاگر کرتے ہوئے ایک مثال شیئر کی۔انہوں نے کہا کہ بہت سے مغربی ممالک میں صنفی مساوات کے مسائل جیسے کہ خواتین کے لیے مساوی تنخواہ پر اب بھی سرکاری اداروں میں بحث ہو رہی ہے۔ تاہم، سعودی عرب میں غیر مساوی تنخواہ کی کسی بھی معاملے کو قانونی طریقۂ کار سے فوری طور پر حل کیا جا سکتا ہے۔

 

شہزادی لمیا نے بتایا کہ ’سعودی عرب میں کوئی بھی سرکاری ادارہ، اگر میں یہ ثابت کر دوں کہ کوئی مرد مجھ سے ایک ریال زیادہ لے رہا ہے، تو میں فوری طور پر ان پر مقدمہ کر سکتی ہوں۔شہزادی لمیا بنت ماجد کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں کوئی بھی ملک اس تجربے سے نہیں گزار جس سے ہم گزر رہے ہیں۔ آپ خواب جی رہے ہیں۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *