مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، یمن کی مسلح افواج نے غزہ کی پٹی کا محاصرہ ختم نہ کرنے کی صورت میں اسرائیلی بحری جہازوں کے خلاف انتقامی کارروائیوں کو دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔
ایک روسی میگزین “ٹاپ وار” نے اپنے ایک مختصر مضمون میں یمنی فوج کی جنگی صلاحیت کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے کہ یمنی فوج کے بحری ہتھیاروں اور جدید میزائلوں کی تعداد حیراکن حد تک زیادہ ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یمن کی انصار اللہ نے گزشتہ دہائی کے وسط میں ثابت کر دیا کہ اسے داخلی گروہوں اور بین الاقوامی اتحادی افواج کے خلاف مزاحمت میں نمایاں کامیابی حاصل ہے۔
2023ء میں جب اسرائیل نے غزہ کی پٹی کے خلاف ایک بڑی جنگ شروع کی تو یمن کی انصار اللہ فوراً میدان میں کود پڑی اور فلسطینیوں کی ہر ممکن مدد کرنے کا عہد کیا۔
پھر تھوڑے ہی عرصے میں اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کے بحری جہازوں پر یمن کے میزائل حملے شروع ہو گئے۔
یمن کی میزائل اور ڈرون طاقت
یمن کے سب سے نمایاں ہتھیاروں میں مختلف اقسام کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل سسٹم شامل ہیں۔
اس وقت انصاراللہ کے پاس زمینی اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے بیلسٹک اور کروز میزائلوں کے ساتھ ساتھ اینٹی شپ سسٹم اور جدید میزائل ماڈلز کا مجموعہ ہے اور امکان ہے کہ وہ مستقبل میں اپنے میزائل ہتھیاروں کو نئے خطوط پر اپڈیٹ کرے گی۔
2015 میں یمنیوں نے “القاہر 1” میزائل تیار کرنا اور اسے جنگی کارروائیوں میں استعمال کرنا شروع کیا۔
یہ میزائل اصل میں S75 سسٹم کا طیارہ شکن میزائل تھا اور اس کی رینج 250 کلومیٹر تک تھی۔
2016 میں یمن نے پہلا “برکان” میزائل بنایا جو منفرد خصوصیات کا حامل تھا اور نمایاں کارکردگی کی بدولت اس کی رینج 700-800 کلومیٹر تک پہنچ گئی۔
2023 سے یمن کی انصار اللہ کے میزائل یونٹس نے کے ساحل سے گزرنے والے اسرائیل سے منسلک بحری جہازوں اور کشتیوں پر باقاعدہ حملے کئے۔
انصاراللہ کی عسکری شاخ ایک مکمل طور پر اعلی صلاحیتوں کی حامل فوج میں تبدیل ہو گئی ہے جس کے مختلف فوجی ڈھانچے ہیں۔ اس کے علاوہ یمنی ایک میزائل فورس بنانے میں کامیاب ہوگئے اور ان کے پاس مختلف قسم کے فضائی ہتھیار ہیں۔ ہتھیاروں اور میزائل سسٹم کا ہونا یمنیوں کو میدان جنگ میں ملک کی سرحدوں سے کافی فاصلے پر دشمن پر حملہ کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
ایک طویل عرصے سے اسرائیل، امریکہ اور دیگر اتحادی ممالک انصار اللہ سے لڑنے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں اور ان کا ہدف اس تحریک کے فوجی انفراسٹرکچر کی شناخت اور اسے تباہ کرنا ہے۔ لیکن ان کے پاس انصار اللہ کے بارے میں درست معلومات نہیں ہیں اور اس کی وجہ سے انہیں یمن سے نمٹنے میں مشکل پیش آتی ہے۔
یمنیوں نے یہ ہتھیار اور جدید آلات کیسے حاصل کئے، اس بارے میں کوئی مکمل اور درست معلومات نہیں ہیں اور اس حوالے سے جو رپورٹیں شائع ہوتی ہیں، ان کا تعلق یمنی کارروائیوں کے جائزے سے ہے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یمنی اسلحے کی سپلائی کے کئی ذرائع ہیں جو ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں، جس سے انصار اللہ کے عسکری ونگ کو بھرپور طریقے سے کام جاری رکھنے کا موقع ملتا ہے۔ یمنی، سنگین پابندیوں کا سامنا کرنے کے باوجود، اعلی صنعتی صلاحیت کے حامل ہیں اور انہوں نے خاص طور پر امریکی تجارتی بحری جہاز اور بیڑے پر بار بار حملہ کرکے انہیں تباہ کرنے کی اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔
واضح رہے کہ یمنی جہاز شکن میزائل طویل فاصلے تک مار کرنے کے لیے ان کا واحد موزوں ہتھیار نہیں ہیں۔ بلکہ یمن نے ڈرون ٹیکنالوجی میں بھی بہت زیادہ ترقی کی ہے۔
ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ یمنی اپنی فوجی ترقی کی تفصیلات کو چھپانے میں کامیاب ہوئے ہیں اور اسی وجہ سے غیر ملکی انٹیلی جنس ایجنسیاں کوشش کے باوجود یمنی میزائلوں کی ساخت اور تعداد کا کھوج نہیں لگا سکیں۔
انصار اللہ اور اس کے اتحادیوں نے کامیابی کے ساتھ اپنی عسکری صلاحیتوں کو چھپا کر دشمنوں کو مخمصے میں ڈالا ہے اور ان کی جنگی طاقت کو نمایاں طور پر کم کر دیا ہے۔