
حیدرآباد ۔ کے این واصف
روزنامہ سیاست کی ایک سرخی “خالص ہوا آدھے گھنٹے کیلئے 5 ہزار روپئے فیس” نے ہمیں چونکا دیا۔ اب تک تو یہی سنا تھاکہ کسی کو بھی ہوا اور پانی مفت ملتاہے۔ لیکن حالات بدلے، ایک عرصہ سے لوگ پانی کی بوتل خرید کر اپنی پیاس بجھانے لگے ہیں۔ لگتا ہے پانی کے بعد اب ہوا خریدنے کی باری آگئی۔ جی ہاں جب سے بڑے شہروں میں آلودگی بڑی، عوام کا صاف ہوا میں سانس لینا مشکل ہوگیاہے۔
کاروباری ذہن رکھنے والوں نے اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حیدرآباد میں “آکسیجن تھراپی چیمبر” قائم کردیئے۔ اور ہزار روپئے فی گھنٹہ فیس وصول کرکے لوگون کو سانس لینے کے لئے صاف ہوا مہیا کرارہے ہیں۔ عوام کو “صاف آب و ہوا” مہیا کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ مگر عوام پینے کے پانی کی تو قیمت ادا کر ہی رہے ہین۔ اب لگتا ہے عوام کو سانس لینے پر بھی ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ تب غریب لوگ بقول شاعر یوں کہیں گے
“زندگی کی دکان پر جاکر
تھوڑی سانسیں ادھار کرتا ہوں”