سید حسن نصراللہ کے بعد حزب اللہ کی مستقبل کی حکمت عملی کیا ہوگی؟

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، لبنانی پارلیمنٹ میں حزب اللہ کی حلیف جماعت کے رکن علی فیاض نے امریکی ادارے “Responsible Statecraft” کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے سید حسن نصر اللہ کی شہادت کے بعد حزب اللہ کی عمومی حکمت عملی سے آگاہ کیا۔ 

 انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں حزب اللہ کی پالیسی لبنانی حکومت کو صیہونی رژیم کے ساتھ بات چیت کا موقع فراہم کرنا ہے جو لبنان کی سرزمین کے ایک حصے پر قابض ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ حزب اللہ اسرائیل کے قبضے کو ختم کرنے کے لیے ضرورت پڑنے پر طاقت کے استعمال کا حق بھی محفوظ رکھتی ہے۔

 علی فیاض نے واضح کیا کہ حزب اللہ شہید سید حسن نصر اللہ کے طریقہ کار، مزاحمتی اصولوں اور لبنان اور خطے سے متعلق ان کے نقطہ نظر پر سختی سے کاربند ہے۔

انہوں نے حزب اللہ کے سیاسی ڈھانچے میں تبدیلی کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حالات کے باوجود حزب اللہ اب بھی ایک مزاحمتی تحریک کے ساتھ ساتھ ایک سیاسی جماعت بھی ہے۔حزب اللہ اب بھی مزاحمت کے آپشن پر قائم ہے اور اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کرنا لبنان کا حق سمجھتی ہے۔

 فیاض نے کہا کہ موجودہ سیاسی تبدیلیوں میں سے ایک یہ ہے کہ لبنانی حکومت نے صہیونی دشمن کے خلاف تعامل کے عمل کو اپنے کنٹرول میں لینے کی کوشش کی ہے اور حزب اللہ نے حکومت کو حالات پر قابو پانے کا موقع فراہم کیا ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ حزب اللہ اب مزاحمت سے دستبردار ہوگئی ہے، ہرگز نہیں۔ 

انہوں نے جنوبی لبنان کے پانچ اہم پوائنٹس پر صیہونی حکومت کے قبضے کے حوالے سے حزب اللہ کے مؤقف کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ حزب اللہ اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ اس سلسلے میں قرارداد 1701 پر عمل درآمد کیا جانا چاہیے اور یہ حکومت کی ذمہ داری ہے، یقیناً ہم بھی صورتحال کا قریب سے جائزہ لے رہے ہیں۔ 

حزب اللہ کے نمائندے نے مزید کہا: اگر حکومت تعطل کا شکار ہوتی ہے تو حزب اللہ علاقوں کی آزادی کی  شرائط کا جائزہ لے سکتی ہے  بہرصورت، ہم جنوبی لبنان کے 5 مقامات پر اسرائیلیوں کی موجودگی کو قبضہ سمجھتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ لبنان کو ان زمینوں کو آزاد کرانے کے لیے “تمام ممکنہ ذرائع” استعمال کرنے کا حق حاصل ہے۔
فیاض نے کہا کہ لبنان کی موجودہ حکومت کو موقع دیا جا رہا ہے، حکومت نے زمینوں کی آزادی اور قومی دفاع کا وعدہ کیا ہے اور حزب اللہ اس میدان میں حکومت کے ساتھ تعاون کر رہی ہے۔

انہوں نے خطے میں نئی ​​امریکی حکومت کے بارے میں حزب اللہ کے نقطہ نظر اور امریکی ایلچی “مورگن آرٹاگوس” کے بیانات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے واضح کیا کہ یہ بیانات غیر ذمہ دارانہ اور لبنان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے مترادف ہیں۔

فیاض نے حزب اللہ کو لبنان کی مقبول ترین سیاسی جماعت قرار دیا، جس کا نمایاں کردار ہے اور اسے وسیع عوامی حمایت حاصل ہے، اور ان بیانات میں لبنانی عوام کے ایک بڑے حصے اور پارلیمنٹ کے ارادے کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔

حزب اللہ کے اس نمائندے نے خبردار کیا کہ امریکہ کا ہدف لبنانی فوج اور حزب اللہ اور اس کے حامیوں کے درمیان محاذ آرائی پیدا کرنا ہے۔

 انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ لبنان کے لیے بہت خطرناک ہے اور ہم اس سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں، ہم لبنانی فوج کے ساتھ ہر ممکن تعاون چاہتے ہیں۔ 

حزب اللہ اور امریکہ کے درمیان براہ راست رابطے کے امکان کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حزب اللہ کے یورپی یونین کے رکن ممالک سمیت دنیا کے کئی ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں لیکن امریکی کی جانب سے  ہماری سرزمین اور فلسطین پر قابض نسل پرست صیہونی حکومت کی حمایت کو دیکھتے ہوئے، ہم براہ راست رابطے کا واضح موقف نہیں رکھتے۔ بلاشبہ، ہم امریکی حکومت اور امریکی معاشرے کے درمیان فرق کرتے ہیں۔

 انہوں نے امریکی حکومت کے ساتھ حزب اللہ کے مسئلے کو دو اہم نکات پر مرتکز قرار دیا کہ جس میں ایک طرف فلسطین اور عرب اسرائیل تنازعہ اور دوسری طرف عالمی نظام کے بارے میں امریکہ کا نقطہ نظر شامل ہے۔
 فیاض نے اس بات پر زور دیا کہ امریکی نقطہ نظر انسانی حقوق کے اصولوں اور دیگر انسانی کنونشنوں سے مکمل طور پر متصادم ہے۔ 

لبنانی پارلیمنٹ کے رکن نے شام کی صورت حال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ شام میں رونما ہونے والی سیاسی پیشرفت حزب اللہ کے لیے بہت بڑا اسٹریٹجک نقصان ہے اور اس مسئلے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

اور اس مسئلے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ بلاشبہ حزب اللہ شام کی سابق حکومت اور اس ملک کے عوام کے درمیان قائم ہونے والے پیچیدہ تعلقات کی نوعیت کی حمایت نہیں کرتی۔ 

شام کی نئی حکومت کے بارے میں حزب اللہ کے موقف کے بارے میں انہوں نے کہا: ہم دونوں ممالک کے درمیان متوازن تعلقات کے حوالے سے شامی حکومت کے موقف کی پیروی کرتے ہیں لیکن ہم اس ملک میں اقلیتوں کی حمایت اور عوامی آزادیوں کے احترام اور جبر خے خاتمے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔

 فیاض نے مزید کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ ہم اسرائیل کے حوالے سے شام کی نئی حکومت کے موقف کا جائزہ لے رہے ہیں جس کے بارے میں بہت سے شکوک و شبہات ہیں۔ اسرائیل اس وقت شام کی سرزمین کے کچھ حصوں پر قابض ہے لیکن نئی حکومت اس معاملے پر کوئی ٹھوس پوزیشن نہیں لیتی جو کہ باعث تشویش ہے۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *