مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی گروپ: شام میں ان دنوں دہشت گرد جولانی رژیم کے عناصر کے ہاتھوں عام شہریوں کے قتل عام کے باعث داخلی تنازعات کی ایک نئی لہر کے آغاز کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔
دنیا کی نظروں کے سامنے رونما ہونے والے ان خونی واقعات پر عالمی حلقوں کی خاموشی افسوس ناک ہے۔
اس رپورٹ میں شام کی حالیہ صورت حال کے حوالے سے اٹھنے والے اہم سوالات کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔
1- شام میں کشیدگی کیسے پیدا ہوئی؟
شام میں گزشتہ دو دنوں کے دوران شدید ترین داخلی تنازعات دیکھنے میں آئے ہیں اور ان تنازعات میں درجنوں افراد جاں بحق اور زخمی ہو چکے ہیں۔
مذکورہ تنازعات کا آغاز جمعرات کو بحیرہ روم کی ساحلی پٹی پر واقع لاذقیہ اور طرطوس کے صوبوں میں ہوا، ان علاقوں میں علوی اور بشار الاسد کی حکومت کے حامی شامل ہیں۔
لاذقیہ کے سیکورٹی ذرائع نے اعلان کیا کہ مسلح گروہوں نے شہر میں جولانی رژیم کی وزارت دفاع سے وابستہ عناصر کو نشانہ بنایا، جھڑپوں کے دوران شام کی وزارت دفاع کا ایک رکن ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے۔
اس کے علاوہ سابق شامی حکومت سے وابستہ فورسز جبلہ کے علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی ہیں۔
اس کے علاوہ السویداء کے شہریوں نے الجولانی کی دہشت گرد حکومت سے وابستہ عناصر کے خلاف شدید احتجاج کیا۔
شام کی ساحلی شہر جبلہ میں روسی اڈے کے قریبی علاقوں میں مسلح تصادم جاری ہے، نیز اسد خاندان کے آبائی شہر القردہ میں دہشت گرد عناصر کے حملوں اور دھماکوں کی خبریں ہیں۔
2- شام کے کن علاقوں میں کشیدگی جاری ہے؟
میڈیا رپورٹس کے مطابق شام میں تنازعات لاذقیہ، طرطوس، السویدا اور درعا تک پھیل چکے ہیں۔
اس نقشے میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ بشار الاسد کی حامی فورسز القردہ، بیت عنا، الدالیہ، حمیمیم اور المختاریہ کے علاقوں میں موجود ہیں جب کہ دوسری طرف بنیاس، جبلہ اور لاذقیہ کے علاقوں میں جولانی رژیم کے دہشت گرد عناصر تعینات ہیں۔
3- شام میں جاری کشیدگی پر خطے کے ممالک کا کیا ردعمل ہے؟
اب تک قطر، اردن، متحدہ عرب امارات اور مصر نے بیانات جاری کرکے شام کے استحکام کے لیے اپنی حمایت پر زور دیا ہے۔
دریں اثنا، سعودی عرب نے الجولانی رژیم کی مکمل حمایت پر زور دیا ہے اور شام پر قابض دہشت گردوں کی حمایت کے لیے ترک فوج کی نقل و حرکت کے بارے میں رپورٹس شائع ہوئی ہیں۔
عراق نے بھی شام کے بحران کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور دیتے ہوئے خطے میں بدامنی پھیلنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
4- شام میں کتنے گروہ معترض ہیں؟
گزشتہ دو دنوں میں شام میں احتجاج کرنے والے گروپوں کو کئی زمروں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
علوی: شامی معاشرے کا یہ حصہ بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے جولانی عناصر کی بڑے پیمانے پر جارحیت اور قتل عام کے باعث احتجاج کر کے اپنے غم و غصے کا اظہار کر رہا ہے۔
سابقہ حکومت کی فورسز: بشار الاسد کی حمایت کرنے والی اور سابق شامی حکومت سے وابستہ افواج اب بھی شام کے کچھ حصوں میں سرگرم ہیں اور جیسا کہ میڈیا رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے، وہ شام پر قابض دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہیں۔
اسد حکومت مخالف دہشت گرد عناصر: بعض دہشت گرد عناصر جنہوں نے پہلے بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے میں حصہ لیا تھا اب مختلف وجوہات (اقتدار میں حصہ مانگنا)کی بنا پر مسلح کارروائیاں کر رہے ہیں، مثال کے طور پر، گزشتہ چند دنوں کے دوران “الصنمین” شہر میں اس وقت جھڑپیں ہوئیں جب “محسن الہمید” کی کمان میں ایک مقامی مسلح گروپ نے حملہ کیا۔ کہا جاتا ہے کہ الہمید اس سے قبل شام کے ملٹری سیکورٹی ڈیپارٹمنٹ کا رکن تھا۔
5- جولانی رژیم شام میں ہونے والے مظاہروں سے کیسے نمٹ رہی ہے؟
میڈیا میں شائع ہونے والی رپورٹس، تصاویر اور ویڈیوز سے ظاہر ہوتا ہے کہ الجولانی کے دہشت گرد ملک میں ہونے والے مظاہروں کو سختی سے کچل رہے ہیں اور شہریوں کا بے دریغ قتل عام کر رہے ہیں۔
سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے آگاہ کیا کہ شام کے ساحلی علاقوں میں قتل عام کے پانچ الگ الگ واقعات ہوئے، جن میں خواتین اور بچوں سمیت 162 شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، انسانی حقوق کے مذکورہ ادارے کی رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ قتل عام کے ان واقعات میں شہریوں کی اکثریت کو جولانی رژیم سے وابستہ فورسز نے فوری طور پر پھانسی دے دی۔
خبر رساں ذرائع نے الجزیرہ کو بتایا کہ درجنوں عام شہری اور سابق شامی حکومتی افواج کے باقیات اپنے اہل خانہ کے ساتھ لاذقیہ کے روسی اڈے میں پناہ لے چکے ہیں۔ بعض میڈیا رپورٹس میں جولانی فورسز کے ہاتھوں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 237 بتائی گئی ہے۔
6- موجودہ صورت حال پر جولانی کا ردعمل کیا ہے؟
گذشتہ رات شام پر قابض دہشت گردوں کے سرغنہ ابو محمد الجولانی نے ملک کے شمالی علاقوں کے عوام کے احتجاج اور مزاحمت کے جواب میں کہا: ہم داخلی امن کو خراب کرنے دیں گے۔ شام آگے بڑھ چکا ہے اور کبھی پیچھے نہیں ہٹے گا۔ انہوں نے مزید کہا: وہ تمام لوگ جو تصادم کے مقامات پر پہنچ چکے ہیں انہیں فوجی کمانڈروں کے احکامات پر عمل کرنا چاہیے۔
الجولانی نے دعویٰ کیا کہ شہریوں کو قتل کرنے والوں کے خلاف مقدمہ چلایا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا: شام کے ساحلی علاقے کے باشندے ہمارے ملک کا اہم حصہ ہیں اور ان کی حمایت کرنا ہمارا فرض ہے۔
الجولانی نے اپنی فورسز سے کہا کہ وہ کسی بھی مبالغہ آمیز ردعمل سے گریز کریں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ شام میں بشار الاسد کی حکومت سے وابستہ قوتیں اس ملک میں افراتفری پھیلانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں۔
الجولانی نے کہا کہ ہم پہلے بھی تم سے لڑ چکے ہیں اور ہم اس ملک کی اصلاح کے لیے کوشاں ہیں جسے تم نے تباہ کیا۔ لہذا تم پر مقدمہ چلایا جائے گا۔
7- بین الاقوامی تنظیموں اور انسانی حقوق کے اداروں کا ردعمل کیا رہا ہے؟
بین الاقوامی تنظیموں اور انسانی حقوق کے اداروں نے بشار الاسد کی حکومت پر انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرنے کا الزام لگایا تھا اور اس ملک کے خلاف مختلف پابندیاں عائد کی تھیں، لیکن اب وہ خاموش ہیں اور جولانی کی دہشت گرد حکومت کے وسیع جرائم پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کرتے۔
دریں اثناء شام سے جاری ہونے والی ویڈیوز اور تصاویر میں واضح طور پر اس ملک میں عام شہریوں کے قتل عام کو دکھایا گیا ہے۔
اس دوران اقوام متحدہ نے ہمیشہ کی طرح جولانی رژیم کے جرائم کا ذکر کیے بغیر شام میں جاری صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔