مقاومت کی حمایت اور عالمی استکبار مخالف حکمت عملی، ایران کی سفارت کاری تاریخی موڑ پر

مہر خبررساں ایجنسی، سیاسی ڈیسک: ایرانی کلینڈر کے مطابق سال کا آغاز 21 مارچ سے ہوتا ہے۔ اس طرح موجودہ ایرانی کلینڈر ائیر ایران کی معاصر خارجہ پالیسی کی تاریخ کے سب سے ہنگامہ خیز اور فیصلہ کن سالوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ سال صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی اور وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان کی شہادت سے شروع ہوا، جس کے بعد نئے صدر کے انتخاب اور نئی سفارتی حکمت عملی کی تشکیل کا عمل شروع ہوا۔ یہ سال مزاحمت، المناک واقعات، سفارتی مواقع اور اسلامی جمہوریہ ایران کی خارجہ پالیسی میں تزویراتی تبدیلیوں سے مرکب رہا۔

المناک سانحے کے ساتھ سال کا آغاز

مئی 2024 میں ایران نے اپنی داخلی اور خارجی پالیسی کے دو اہم ترین شخصیات کا سوگ منایا۔ آیت اللہ رئیسی اور حسین امیر عبداللہیان ایک ہیلی کاپٹر حادثے میں شہید ہو گئے۔ دونوں رہنما ایران کی خارجہ پالیسی کی تشکیل اور اس پر عمل درآمد میں مرکزی حیثیت رکھتے تھے، خواہ وہ مشرق کے بارے میں حکمت عملی ہو خواہ مغربی پابندیوں کا مقابلہ کرنے کی پالیسی۔

مقاومت کی حمایت اور عالمی استکبار مخالف حکمت عملی، ایران کی سفارت کاری تاریخی موڑ پر

ان کی شہادت ایران کی خارجہ پالیسی کے لیے ایک بڑا چیلنج بنی۔ ملک نے اپنے دو اہم سفارتی معمار کھو دیے اس لیے اس نازک وقت میں ان کے جانشینوں کا تقرر ناگزیر تھا۔

بین الاقوامی ردعمل: حقیقی ہمدردی یا سیاسی حکمت عملی؟

صدر اور وزیر خارجہ کی شہادت کے اعلان کے بعد دنیا بھر سے تعزیتی پیغامات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ایران کے اتحادی اور خطے کے مزاحمتی گروہ اس واقعے کو سامراج مخالف محاذ کے لیے ایک بڑا نقصان قرار دے رہے تھے۔ دوسری جانب، کچھ مغربی ممالک نے محتاط انداز میں تعزیت کا اظہار کیا، جسے تجزیہ کاروں نے پرخلوص ہمدردی کے بجائے سفارتی روایات کا حصہ سمجھا۔

اسی دوران امریکہ اور بعض یورپی ممالک نے اس واقعے کو ایک موقع کے طور پر دیکھ اور قیاس کیا کہ ایران کی اعلی قیادت میں تبدیلی تہران کو زیادہ لچکدار پالیسیوں کی طرف دھکیل سکتی ہے۔ تاہم یہ اندازہ جلد ہی غلط ثابت ہوا کیونکہ ایران نے اپنی مزاحمت پر مبنی خارجہ پالیسی کو برقرار رکھا۔

صدارتی انتخاب: تبدیلی یا پچھلی حکمت عملی کا تسلسل؟

آیت اللہ رئیسی کی شہادت کے بعد ایران کو اپنی جدید تاریخ کے ایک اہم ترین صدارتی انتخاب کا انعقاد کرنا پڑا۔ ملک کی سیاسی قیادت نے تیزی سے ان کے جانشین کے انتخاب کے لیے اقدامات کیے۔ یہ انتخاب نہ صرف داخلی بلکہ بین الاقوامی طور پر بھی بڑی توجہ کا مرکز بنا کیونکہ نئے صدر کو ایک انتہائی نازک موڑ پر ایران کی خارجہ پالیسی کی قیادت سنبھالنی تھی۔

اس انتخاب کے دوران ایک بنیادی سوال یہ تھا کہ کیا ایران شہید رئیسی کی خارجہ پالیسی کو جاری رکھے گا یا کسی نئی حکمت عملی کی طرف بڑھے گا۔ کیا مشرق وسطی کے بارے میں سابقہ حکومت کی پالیسی برقرار رہے گی؟ کیا ایران مزاحمتی محاذ کی حمایت جاری رکھے گا؟ یا نئی حکومت مغرب کے ساتھ تعلقات کو ازسرنو متعین کرتے ہوئے مشروط تعلقات کی پالیسی اپنائے گی؟

بالآخر منتخب صدر نے ایران کی بنیادی خارجہ پالیسی کے اصولوں کو برقرار رکھنے کا اعلان کیا۔ اپنی ابتدائی تقاریر میں انہوں نے فعال علاقائی سفارت کاری، مزاحمتی محاذ کی غیر متزلزل حمایت، مشرقی ممالک کے ساتھ تعلقات کے فروغ اور بین الاقوامی اقتصادی تعاون کے ذریعے پابندیوں کو غیر مؤثر بنانے پر زور دیا۔

بعد از انتخابات خارجہ پالیسی: مزاحمتی سفارت کاری

نئی حکومت کے قیام کے بعد ایران کی خارجہ پالیسی نے چند اہم نکات پر توجہ مرکوز کی:

1. مشرق محور حکمت عملی کا تسلسل

ایرانی کلینڈر ائیر میں ایران نے چین اور روس کے ساتھ اسٹریٹجک تعاون کو جاری رکھا۔ شنگھائی تعاون تنظیم میں فعال شرکت اور برکس کے رکن ممالک کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو مضبوط بنانا اس حکمت عملی اور اقدامات میں شامل تھے۔ مغربی پابندیوں کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کرنے کے لیے اقتصادی اور عسکری تعاون بدستور اولین ترجیح رہا۔

2. خطے میں بڑھتا ہوا اثر و رسوخ

صدر اور وزیر خارجہ کی شہادت کے باوجود ایران کی علاقائی پالیسی میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آئی۔ فلسطین، لبنان، عراق اور یمن میں مزاحمتی محاذ کی حمایت بدستور جاری رہی۔ ایران نے اسرائیل کی توسیع پسندانہ پالیسیوں اور خطے میں امریکی مداخلت کا مقابلہ کرنے کی حکمت عملی برقرار رکھی۔ فلسطینی مزاحمتی کارروائیوں، سکیورٹی خطرات کے خلاف فیصلہ کن ردعمل اور مزاحمتی محاذ کے لیے کھلی حمایت نے اس تسلسل کو مزید واضح کیا۔

3. مغرب کے ساتھ مشروط تعلقات

اگرچہ ایران نے مشرقی ممالک کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کیا، لیکن یورپ اور حتی کہ امریکہ کے ساتھ بعض شعبوں میں سفارتی روابط برقرار رہے۔ تاہم یہ تعلقات صرف ان شرائط پر استوار کیے گئے جو اسلامی جمہوریہ کے Red Lines کا احترام کرتی تھیں۔ ایران نے اقتصادی اور سیاسی مذاکرات کو اپنی بنیادی خارجہ پالیسی کے اصولوں پر سمجھوتہ کیے بغیر آگے بڑھایا۔

4. اقتصادی سفارت کاری کی بحالی

نئی حکومت نے نان آئل ایکسپورٹس میں اضافے، ہمسایہ ممالک کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو مضبوط بنانے اور تجارتی راستوں کو فعال کرنے کو اپنی ترجیحات میں شامل کیا۔ پابندیوں کے اثرات کم کرنے اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے سرگرم کوششیں کی گئیں۔

یمن، فلسطین اور مزاحمتی محاذ کی مسلسل حمایت

ایرانی کلینڈر سال میں ایران کی خارجہ پالیسی کا ایک اہم ترین پہلو مزاحمتی محاذ کی غیر متزلزل حمایت تھی۔ غزہ پر اسرائیل کے بڑھتے ہوئے حملوں کے دوران ایران نے فلسطینی مزاحمتی گروہوں کی بھرپور مدد کی۔ اس حوالے سے یمن نے بھی مزاحمتی محاذ میں ایک نمایاں کردار ادا کیا اور اسرائیلی و امریکی مفادات سے جڑے بحری جہازوں پر حملوں میں شدت لایا۔ ایران نے براہ راست اور بالواسطہ طور پر ان کارروائیوں کی حمایت جاری رکھی۔ مزید برآں، تہران نے بین الاقوامی سفارتی اقدامات کے ذریعے فلسطینی مسئلے کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے اور اسرائیلی جرائم کے خلاف عالمی اتفاقِ رائے پیدا کرنے میں فعال کردار ادا کیا۔

رواں ایرانی سال کے دوران ایران کے لیے چیلنجز اور سفارتی مواقع

اس سال ایران کی خارجہ پالیسی کو کئی چیلنجز اور مواقع کا سامنا رہا۔ اہم چیلنجز میں مغربی پابندیوں کے باعث اقتصادی دباؤ، عالمی سطح پر ایران کو تنہا کرنے کی مغربی کوششیں، اسرائیل اور بعض علاقائی ممالک سے درپیش سیکیورٹی خطرات، داخلی سیاسی پیچیدگیاں اور مغرب کے ساتھ تعلقات پر مختلف نقطہ نظر شامل ہیں۔

اہم سفارتی مواقع میں خطے اور عالمی امور میں ایران کے کردار میں وسعت، چین، روس اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ اقتصادی و تزویراتی تعلقات کو مضبوط کرنا، مقاومتی محاذ کی حمایت جاری رکھنا، عالمی برادری میں ایران کی بین الاقوامی ساکھ کو مستحکم کرنا اور بین الاقوامی اداروں میں فعال شرکت کے ذریعے مغربی دباؤ کا مقابلہ کرنا شامل ہیں۔

ایران کی خارجہ پالیسی کے لیے ایک فیصلہ کن سال

رواں ایرانی سال خارجہ پالیسی کے لحاظ سے ایک تاریخی اور اہم موڑ ثابت ہوا۔ صدر اور وزیر خارجہ کی شہادت، صدارتی انتخابات، مزاحمتی محاذ کی حمایت، علاقائی و عالمی سفارتی سرگرمیاں اور مغربی ممالک کا دباؤ، یہ تمام عوامل اس سال کو ایران کی سفارتی تاریخ میں ایک تبدیلی کا سال بناگئے۔ بالآخر بڑے چیلنجز کے باوجود اسلامی جمہوریہ ایران نے نہ صرف اپنی خارجہ پالیسی کے تسلسل کو برقرار رکھا بلکہ عالمی سیاست میں اپنی پوزیشن کو مزید مستحکم کیا۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *