ان پوسٹروں میں حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلم ‘چھاوا’ کا حوالہ بھی دیا گیا، جس میں اورنگزیب کی تصویر کشی کی گئی ہے، جبکہ اس واقعے میں اکبر کو نشانہ بنایا گیا، جس سے ان مظاہرین کی معلومات پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔
گئو رکشا دل کے کارکن اور واقعے کی ذمہ داری قبول کرنے والے دکش چودھری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، “حکومت نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ ہماری سڑکوں پر لٹیروں کے نام کیوں ہیں؟ اکبر نے بھی جبری تبدیلی مذہب کرائی تھی اور یہ حقیقت این سی ای آر ٹی کی کتابوں میں بھی درج ہے۔ ہم نے فلم ‘چھاوا’ میں بھی یہی دیکھا کہ کیسے مغل حکمرانوں نے نسل در نسل حکومت کی۔ ہمیں تلوار کے زور پر لباس تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ اگر انہیں اس عمل پر گرفتار بھی کر لیا جائے تو انہیں کوئی پرواہ نہیں۔