مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان کے سینئر صحافی و سکھ اینکر پرسن ہرمیت سنگھ نے مہر نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شہید حسن نصراللہ ایسی شخصیت تھے جس نے مقاومت کے لیے جو کچھ کیا وہ سب کے سامنے ہے۔ آپ دیکھیں ہو لبنان جس پر جب اسرائیل نے قبضہ کیا وہ ازاد کرانے میں اہم رول شہید سید حسن اللہ کا تھا 1997 میں انہوں نے فرنٹ لائن پر جاکر مقاومت کی۔ عام طور پر بڑے لیڈر آگے کم اتے ہیں لیکن شہید حسن نصراللہ عملی طور پر بھی اس میں حصہ بھی لے رہے تھے۔ انہوں نے نہ صرف اپنی جان کی پرواہ نہیں کی بلکہ اپنے اپنا بیٹا بھی پیش کردیا۔ تو ہم اندازہ لگاسکتے ہیں کہ جب اپنا مال اپنے بچے اپنی اولاد ان سب کو صرف ایک ہی راہ پر قربان کرے تو ہمیں ان کے اخلاص کا اندازہ ہوتا ہے۔ انہوں نے فیصلہ کیا تھا کہ میں نے سچ اور حق کی بات کرنی ہے؛ میں نے ظالم کے خلاف بولنا ہے ہر حال میں بولنا ہے جس پلیٹ فارم بھی ہو میں نے لڑنا ہے تو انسان اپنا سب کچھ قربان کردیتا ہے۔ ان کے خلاف ہر طرح کی جالیں بنی گئیں لیکن وہ سرخرو رہے۔
انہوں نے کہا کہ شہید حسن نصراللہ کو غزہ سے حماس نے ان کو کوئی دعوت نہیں دی تھی لیکن انہوں نے اس جنگ کو اپنی جنگ سمجھا اور بغیر دعوت کے جنگ میں حاضر ہوئے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ جس طریقے سے اسرائیل کی کابینہ میں یہ بات ہوتی تھی کہ اگر ہم لبنان کے ساتھ جنگ کا دروازہ کھول لیتے ہیں تو وہاں پہ زمینی جنگ کرنا پڑا مشکل ہوگا اور جب لاشوں کے ڈھیر لگنا شروع ہوئے تو وہی اسرائیلی تھے جنہوں نے کہا کہ اب سیز فائر ہونی چاہیے لیکن اپ اس پوری پلاننگ کو دیکھیں تو جس سبکی کا سامنا اسرائیل کو کرنا پڑا ہے تو یہ سارا شہید نصراللہ کے خیالات اور نظریات کا نتیجہ تھے۔
انہوں نے شہید نصراللہ کی زندگی کے بارے میں کہا کہ ایسی زندگی اور ایسی موت کا ہر انسان خواہش مند ہوتا ہے اور ایسی مائیں خوش نصیب ہوتی ہیں جو حسن نصر اللہ شہید جیسے لوگوں کو جنم دیتی ہیں۔ انہوں نے ایک شیر کی طرح زندگی گزاری اپ نے دیکھا جس جوان مردی، بہادری اور شجاعت کا انہوں نے مظاہرہ کیا میرے خیال میں ایسا لیڈر دنیا میں صدیوں میں کہیں پیدا ہوتا ہے۔ دنیا سے تو وہ چلے گئے ہیں لیکن ان کے نظریات ان کے خیالات ان کی وہ آج بھی سب کے دلوں میں زندہ ہے۔ ان کے نظریات سے متاثر ہوکر لوگ اس وقت ظالم کو للکار رہے اور مظلوم کا ساتھ دے رہے ہیں۔
ایران کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایران خطے میں مقاومت کو لیڈ کررہا ہے۔ جب عرب ممالک سارے سرنڈر ہوچکے تھے اس وقت ایران نے مشرق وسطی میں اہم کردار ادا کیا۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ وہ مقاومت کو سپورٹ کررہا ہے۔ جنرل قاسم سلیمانی نے اپنی سوچ سے مقاومت کو دوبارہ اس مقام پر کھڑا کردیا لہذا مقاومت کی کامیابی میں جنرل قاسم سلیمانی شہید کا بہت بڑا اور اہم رول تھا۔ آپ نے دیکھا کہ سات اکتوبر کے بعد مجاہدین عملی طور پر میدان میں ائے جس طریقے سے ان کو ٹریننگ کی دی گئی تھی۔ ڈیڑھ سال کی اس لڑائی میں اسرائیل کو شدید نقصان پہنچایا اور حماس نے دنیا کو حیران پریشان کردیا۔ دوسری جانب ایران نے اسرائیل پر تابڑ توڑ حملے کیے۔ اسرائیل کے بارے میں تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اسرائیل کو بھی کوئی للکارے گا۔ ایران وہ واحد ملک ہے جس نے اسرائیل کو للکارا۔
شہید حسن نصراللہ کی تشییع جنازہ کے موقع پر صہیونی حکومت کے اشتعال انگیز اقدامات اور لبنانی عوام کے ردعمل کے بارے میں انہوں نے کہا کہ وہاں پر اپ نے یہ بھی دیکھا کہ وہاں پر جیٹ طیارے کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہے تھے لیکن اس کے باوجود جب وہ بیروت کی فضاؤں میں داخل ہوتے ہیں لوگوں کا جو حوصلہ تھا لوگوں کی جو استقامت تھی اور وہ جو بہادری تھی وہاں نظر آرہی تھی کہ لوگ جوتے کے نوک پر رکھ رہے تھے اور وہ مکے لہرا رہے تھے۔ میں نے وہاں پر دیکھا کہ ایران اور دیگر ممالک سے بڑی بڑی شخصیات اور مقاومت کو سپورٹ کرنے والے لوگ آئے ہوئے تھے۔ ایرانی وزیرخارجہ سمیت دیگر اعلی حکام موجود تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس سے بڑا جنازہ دنیا میں کہیں نہیں دیکھا۔ کمال کے وہاں پہ انتظامات کیے گئے تھے۔
سید مقاومت کی شہادت اور افکار کے اثرات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ شہید نصر اللہ کو تو آپ نے دفنا تو دیا لیکن ان کے نظریات، ان کے خیالات اور ان کی سوچ و فکر اج بھی حیات اور زندہ ہیں۔ آج بھی مقاومت سپورٹ کرنے والوں کے دلوں وہ نظریات زندہ ہیں اور یقینا وہ ایک ہیرو کی طرح ہیں۔ انہوں نے شہادت کو گلے لگایا اور یقینا ایسی موت کا انتظار دنیا کا ہر انسان کو ہے۔ خوش قسمت ہوتا ہے ایسا انسان جو عملی طور پر بھی تمام تر محاذوں پر لڑے۔ میرے خیال میں یہ سید حسن نصراللہ شہید کی جو ہے یہ خواہش بھی تھی اور اللہ تعالی نے ان کی خواہش بھی پوری کردی۔ میں نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں سیکھ کمیونٹی کی جانب سے میں سید حسن نصر اللہ شہید کو اور تمام شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں جنہوں نے ظلم کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ڈٹ کر کھڑے رہے اور آج مقاومت کے جوان جس ہمت، بہادری اور جرائت کے ساتھ کھڑے ہیں میں ان کو سیلوٹ پیش کرتا ہوں۔