مہر خبررساں ایجنسی، دین و عقیدہ ڈیسک: ماہ رمضان المبارک قرآن کریم کی بہار ہے جس میں دوسری عبادتوں کے ساتھ تلاوت قرآن کی بہت زیادہ تاکید اور فضیلت بیان کی گئی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ زندگی کے سفر میں قرآن کے ساتھ ہم آہنگ ہوں اور زندگی کے ہر موڑ پر کلام وحی سے خود کو قریب رکھیں۔ قرآنی آیات کو نہ صرف حفظ کریں بلکہ انہیں گفتار اور عمل میں بھی بروئے کار لائیں، تاکہ ہم عملی زندگی میں بھی قرآن سے بھرپور استفادہ کرسکیں۔
جیسے رسول رحمت کا اخلاق عین قرآن تھا، ہمیں بھی اس عظیم روش کو اپنانا چاہیے۔ قرآن ہمیں تعلیم دیتا ہے کہ زندگی کی مشکلات میں خدا کی حکمت پر بھروسہ کریں خواہ وہ بظاہر ناگوار ہی کیوں نہ ہوں۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے: کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ کُرْهٌ لَکُمْ ۖ وَعَسَیٰ أَنْ تَکْرَهُوا شَیْئًا وَهُوَ خَیْرٌ لَکُمْ ۖ وَعَسَیٰ أَنْ تُحِبُّوا شَیْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَکُمْ ۗ وَاللَّهُ یَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ تمہیں جنگ کا حکم دیاگیا ہے جب کہ وہ تمہیں ناگوار ہے اور ممکن ہے کہ ایک چیز تمہیں ناگوار گزرے مگر وہی تمہارے لیے بہتر ہو، جیساکہ ممکن ہے ایک چیز تمہیں پسند ہو مگر وہ تمہارے لیے بری ہو، (ان باتوں کو) خدا بہتر جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔
بعض اوقات میٹھا ذائقہ چکھنے کے لیے تلخی سہنی پڑتی ہے۔
زندگی گزارنے کا ایک بنیادی اصول
ہماری زندگی حسرتوں اور ناکامیوں سے بھری پڑی ہے، جو بعض اوقات ہمیں مایوس کردیتی ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ اس آیت میں ایک ایسا بنیادی اصول بیان فرماتا ہے، جو اگر ہم سمجھ لیں تو زندگی کے چیلنجز کو بہتر طریقے سے جھیل سکتے ہیں اور حسرتوں سے نجات پا سکتے ہیں جو چیز بظاہر ناپسندیدہ نظر آتی ہے، وہ درحقیقت خیر و برکت سے بھری ہو سکتی ہے، اور جو چیز ہمیں پسند ہو، وہ ہمارے لیے نقصان دہ ہوسکتی ہے۔ لہذا سطحی نظر سے فیصلہ کرنا کافی نہیں، بلکہ خدا کی حکمت اور علم پر بھروسہ ضروری ہے۔
کیا کبھی ایسا ہوا کہ آپ نے کسی چیز کو پسند کیا ہو، مگر بعد میں معلوم ہوا کہ وہ آپ کے لیے نقصان دہ تھی؟ یا کسی چیز کو ناپسند کیا ہو، اور بعد میں وہی آپ کے حق میں بہتر ثابت ہوئی ہو؟ اللہ تعالی فرماتا ہے: فعَسی أَنْ تَکْرَهُوا شَیْئاً وَ یَجْعَلَ اللَّهُ فیهِ خَیْراً کَثیراً “پس ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں بہت زیادہ خیر رکھ دے۔” (سورہ نساء: 19)
یہ آیات نہ صرف فرد کی ہدایت کے لیے ہیں بلکہ ہمیں اجتماعی استقامت کا درس بھی دیتی ہیں۔ اللہ نے دشمنوں سے جنگ کو فرض کیا، اگرچہ انسان اس سے گریز کرتا ہے، لیکن کیا بغیر جدوجہد اور قربانی کے امن اور انصاف قائم کیا جاسکتا ہے؟ ہم امن کے خواہاں ہیں، مگر امن صرف کھوکھلے نعروں سے حاصل نہیں ہوتا، بلکہ امن کے دشمنوں کے خلاف عملی جدوجہد ناگزیر ہے۔
رہبرِ معظم انقلاب فرماتے ہیں: ظالم قوتوں کے سامنے تسلیم ہونے کی قیمت، ان کے خلاف استقامت کی قیمت سے کہیں زیادہ ہے۔
آج بھی صہیونی ظلم کے خلاف جدوجہد نہ صرف مظلوموں کا دفاع ہے، بلکہ اسلامی تشخص، عزت اور ترقی کا ذریعہ بھی ہے۔ امام خمینیؒ نے قرآنی تعلیمات سے بصیرت لیتے ہوئے ایران پر مسلط کردہ جنگ کو انقلاب کے لیے خطرہ نہیں بلکہ ترقی کا موقع سمجھا اور فرمایا: “ہماری ہر مسلط کردہ جنگ ایک برکت لے کرآئی، ہم نے اپنی مظلومیت اور دشمن کے ظلم کو ثابت کیا، ہم نے عالمی استکبار کا پردہ چاک کیا، اور ہم نے یہ سیکھا کہ ہمیں خود کفیل ہونا ہوگا۔ ہماری جنگ، فلسطین کی آزادی کا پیش خیمہ ہوگی، اور اس سے بھی زیادہ اہم یہ جنگ انقلاب اسلامی کی بقاء اور استمرار کا ذریعہ بنی۔”
وَ اللَّهُ یَعْلَمُ وَ أَنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ “اور اللہ جانتا ہے جبکہ تم نہیں جانتے۔”
گویا خدا ہمیں کہہ رہا ہے: مجھ پر بھروسہ کرو، کیونکہ تم پردے کے پیچھے کے حقائق سے بے خبر ہو۔
زندگی میں اس آیت پر عمل کیسے کریں؟
1۔ مشکل حالات اور ناگوار واقعات کا سامنا کرتے وقت ناامید نہ ہوں، بلکہ یاد رکھیں کہ اللہ ہمیشہ ہمارے لیے خیر کا ارادہ رکھتا ہے۔
2۔ استقامت کا راستہ اپنائیں اور محض مشکلات کی وجہ سے جدوجہد ترک نہ کریں۔
3۔ کسی بھی کام میں فیصلے کرتے وقت صرف آسان راستہ نہ دیکھیں بلکہ حق اور سچائی پر قائم رہیں۔
4۔ اپنی زندگی کے مشکل لمحات پر نظر ڈالیں اور سوچیں کہ کیسے وہی چیلنجز بعد میں آپ کے فائدے میں تبدیل ہوئے۔
زندگی کے سفر میں اللہ کی حکمت پربھروسہ رکھیں!