بی آرایس سے اتحاد،جناسینا کی بی جے پی میں انضمام کی اطلاعات کو امیت شاہ نے مستردکردیا

حیدرآباد: مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے تلنگانہ میں بھارت راشٹرا سمیٹی (بی آر ایس) کے ساتھ کسی بھی انتخابی اتحاد یا اسے توڑنے کی کسی بھی کوشش کو مسترد کر دیا ہے۔ انہوں نے ان افواہوں کو بھی خارج کر دیا کہ ریاست آندھرا پردیش میں پون کلیان کی جماعت جنا سینا بالآخر بی جے پی میں ضم ہو جائے گی۔

انہوں نے کہا، ‘بی آر ایس جس کی قیادت ایک ایسا شخص کر رہا ہے جو حکومت میں ہو یا باہر، ایک فارم ہاؤس میں بیٹھ کر سیاست چلاتا ہے، اس کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ اس لیڈر نے بیٹے اور بیٹی کو لوٹ مار کے لیے چھوڑ دیا ہے۔

امیت شاہ نے کوئمبتورمیں میڈیا سے دو گھنٹے سے زیادہ جاری ر ہی ایک غیر رسمی گفتگو میں مختلف موضوعات پر اپنی رائے کا اظہار کیا۔جنوبی ہند میں بی جے پی کی انتخابی ناکامی پر تبصرہ کرتے ہوئے امیت شاہ نے کہا کہ 2014 کے بعد پارٹی ریاست در ریاست تنظیم کو مستحکم کرنے پر توجہ دے رہی ہے، اور بنیادی نظریہ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا رہاہے، اس لیے ترقی کی رفتار سست ضرور ہے، مگر نتیجہ خیز ثابت ہو رہی ہے۔

انہوں نے شمال مشرقی ریاستوں اور اوڈیشہ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اب مغربی بنگال، تمل ناڈو اور تلنگانہ بی جے پی کے لیے ‘ضرور جیتنے والی’ ریاستوں کی فہرست میں شامل ہیں۔

 بی جے پی اور اے آئی اے ڈی ایم کے یا اداکار وجے کی ٹی وی کے کے درمیان اتحاد کے بارے میں کوئی واضح جواب نہ دیتے ہوئے، شاہ نے صرف اتنا کہا کہ ‘این ڈی اے، ڈی ایم کے کا مقابلہ کرے گا،انہوں نے تلنگانہ میں کسی بھی اتحاد کے امکان کو یکسر مستردیا۔ تلنگانہ میں بی جے پی صد رکے تقرر میں تاخیر کی وجہ پر سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ دیگر کئی ریاستوں میں بھی موجود ہے۔

لوک سبھا نشستوں کی حد بندی کے باعث جنوبی ریاستوں کے ساتھ ناانصافی کے خدشات کو مسترد کرتے ہوئے، شاہ نے کہا کہ ‘یہ محض ایک خدشہ ہے، تمام ریاستوں کے لیے متناسب اضافہ ہوگا، اور کسی کی نشستیں کم نہیں ہوں گی۔’

 انہوں نے ریاستوں پر ہندی مسلط کرنے کے الزامات کو بھی خارج کرتے ہوئے کہا کہ بی جے پی ہندی کے فروغ کی حامی ہے، مگر مقامی زبانوں کو فروغ دینے سے کبھی نہیں روکا۔ ‘ہم نے تو میڈیکل کی نصابی کتب ہندی اور گجراتی میں بھی شائع کی ہیں، تو ٹامل میں کیوں نہیں ہو سکتیں؟’

 نظریاتی معاملات پر کوئی سمجھوتہ نہ کرنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ کچھ معاملات میں بی جے پی عوامی مطالبات کے بجائے وہی کرے گی جو طویل مدتی فائدے کے لیے بہتر ہوگا۔ عوامی جذبات کو خوش کرنا وقتی طور پر کسی جماعت کو فائدہ پہنچا سکتا ہے، مگر طویل مدتی بہتری کے لیے ضروری ہے کہ درست فیصلے کیے جائیں۔

انہوں نے اس کی مثال دفعہ 370 کی منسوخی اور ہندی کے نفاذ پر مزاحمت سے دی۔ ون نیشن، ون الیکشن کے سلسلہ میں، انہوں نے کہا کہ قانون نافذ ہونے کے بعد اس کے نفاذ کی تاریخ واضح ہو جائے گی، اور ریاستی اسمبلیوں کی مدت کو قومی انتخابات کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لیے ایڈجسٹ کیا جائے گا۔

دہلی اسمبلی انتخابات کے حالیہ نتائج کا تجزیہ کرتے ہوئے، بی جے پی کے سینئر رہنما نے کہا کہ مؤثر مائیکرو مینجمنٹ کے ساتھ ساتھ عوام نے اروند کیجریوال کی کرپشن اور شراب اسکام سمیت دیگر بدعنوانیوں پر شدید برہمی ظاہر کیا، جس سے وہ بے نقاب ہو گئے۔



ہمیں فالو کریں


Google News

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *