سید مقاومت کا جنازہ، فاتح کی سواری

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک، ارشاد حسین ناصر: ستائیس ستمبر سے لے کر تئیس فروری تک ہم نے ہر لمحہ سخت تکلیف اور غم میں گذارا ہے، یہ ایام لگ بھگ پانچ ماہ بنتے ہیں، ان پانچ مہینوں میں سید مقاومت کی شہادت کی خبر نے ایسا رنجیدہ اور دکھی و مغموم رکھا ہے کہ اس کا اظہار ممکن نہیں۔ ان کیفیات کو الفاظ کے معانی نہیں پہنائے جا سکتے، جن سے ہم گذرے ہیں۔ آنسوئوں کیساتھ پانچ مہینوں کے ہر لمحہ میں ان کی یاد نے جیسے آنکھوں کو سیلاب زدہ کر دیا تھا۔ جب بھی خیال آتا، ان کی تصویر سامنے آتی، ان کی کوئی تقریر کا کلپ سنتے اور ان کی مانوس آواز، دلربا لہجہ کانوں میں پڑتا تو آنسوءوں کی جھڑی لگ جاتی۔ ہاں۔۔ ہم نے۔۔ سید کی جدائی میں رونے میں قطعاً شرم نہیں کی۔ بلا شبہ ہم نے سید کیلئے برملا گریہ کیا، تنہائی میں کیا، دوستوں کیساتھ محفلوں میں کیا۔ اپنوں اور غیروں کے سامنے تذکرہ کرتے ہوئے کیا، ہم نے انہیں سوچتے ہوئے گریہ کیا، ان کو دیکھتے ہوئے آنسو بہائے۔

لکھتے ہوئے ہمارے گالوں پر بہنے والے آنسو ان کے “وعد الصادق” ہونے کی گواہی دیتے رہے۔ یہ پانچ ماہ ہم نے جس کرب اور درد سے گذارے، اس میں دل کے کسی خانے میں اک آس، اک امید، اک خواہش بھی موجود رہی۔ اے کاش۔۔۔ سید زندہ ہوں، سید محفوظ ہوں، سید یک دم اپنے توانا وجود کیساتھ ظاہر ہوں اور دنیا کو ایک معجزہ کی کیفیت میں ورطہء حیرت میں ڈال دیں۔ مگر۔۔ پھر وہ دن آیا، جب حزب اللہ نے ان کی تشیع جنازہ اور تدفین کی تاریخ مقرر کی۔ تب امید دم توڑ گئی، آس کے دیئے کی لو ماند پڑتی پڑتی بالآخر بجھ ہی گئی اور یقین ہو چلا کہ “سید” اپنے فانی وجود کیساتھ شاید کبھی نظر نہیں آسکیں گے۔ تب سے پوری دنیا کی طرح ہمیں بھی سید کے جنازے و تدفین کے دن کا انتظار تھا۔ گذشتہ روز 23 فروری کا دن اس عنوان سے تاریخی تھا کہ اس روز ایک عظیم قائد، ایک عالمی مبارز، مقاوم اور مزاحمتی شخصیت کا جنازہ اپنی شان و شوکت اور عظمت و شرف کیساتھ ہونا قرار پایا تھا۔

سید حسن نصراللہ بلا شک و شبہ اس صدی کے ایک دیو مالائی کردار کی حیثیت رکھتے تھے، ان کا جنازہ بھی ایک لازوال اور بے مثال ہونا چاہیئے تھا، وہ مزاحمت کا ایسا استعارہ بنے کہ عرب و عجم نے انہیں اپنے دل میں بسا لیا، یہ بہت عرصہ کے بعد ہوا تھا کہ ایک پیرو اہلبیت، ایک عاشق اہلبیت، ایک سید عزیز، ایک کربلا کے فرزند کو امت نے اپنے قلوب میں بسایا۔ وگرنہ تعصب کی اندھے گڑھے میں گرے ہوئے بہت بڑے بڑے نام بھی اپنے خبث باطن کو ظاہر کر دیتے ہیں۔ اس کی مثال بانی انقلاب اسلامی امام خمینی کی ذات مقدسہ ہے، جنہیں متعصب اور جاہل لوگوں نے فقط ایک شیعہ شخصیت کے طور پر پہچانا، ان کے لافانی و آفاقی کردار کی ہمیشہ نفی کی، جبکہ وہ ایک آفاقی، الہیٰ انسان تھے، جو صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔ بقول شاعر

مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انساں نکلتا ہے

سید مقاومت، سید حسن نصراللہ اپنے کردار، اپنے عمل، اپنے سچے وعدوں، اپنے اخلاص، اپنے افکار، اپنے خیالات، اپنے اظہارات، اپنی جدوجہد، اپنے احساسات کی وجہ سے صدیوں بعد سامنے آنے والی شخصیت کے مالک تھے۔ لہذا ان کا جنازہ بھی اتنا ہی بلند شان اور باشکوہ ہونا چاہیئے تھا۔ ایسے موقع پر جب اسرائیل حماس کے سات اکتوبر کے طوفان الاقصیٰ کے بعد سے مسلسل ہزیمت اٹھا رہا ہے اور جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے مراحل میں اسے روز شرمندگی اٹھانا پڑتی ہے اور لبنان میں اس کی جارحیتوں کے خلاف حزب اللہ نے اسے بہت بڑی ضربیں لگائی ہیں، بالخصوص اس کے دفاعی نظام کا جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے۔ ایسے میں جب اسرائیل شام جیسے ملک پر قابض ہو چلا ہے اور نام نہاد مسلمان اسے قبول کرتے ہوئے خطے کا چودھری قبول کرتے ہوئے اس کے سامنے سجدہ ریز ہیں۔ ایسے میں مقاومت لبنان کی طرف سے سید مقاومت کا پرشکوہ جنازہ درحقیقت اس قوت کا اظہار ہے، جس کی بنیاد پر حزب اللہ اپنے دشمنوں کو دھول چٹاتی آرہی ہے اور اپنے عظیم رہنماوں کی قربانیوں سے عبارت داستان شجاعت کے اوراق لکھتی آرہی ہے۔

سید مقاومت کا جنازہ اس داستان شجاعت کی کتاب کا وہ سر ورق ہیں، جن کے جنازے سے بھی دشمن بہت گھبرایا ہوا تھا۔ اس نے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیے، جمہوری اسلامی ایران کی بیروت پر پروازوں پر پابندی لگوائی، اسرائیل جسے 80 ٹن سے زیادہ بارود کے ملبے تلے دبا چکا تھا اور اسے سید حسن نصراللہ کی لاش ملنے کی امید نہیں تھی۔ کجا ان کی میت کو شایان شان طریقہ سے الوداع کہنا اور دنیا کے بیسیوں ممالک کے مقاومت پسند رہنماوں اور شخصیات کی بھرپور شرکت، اپنے اظہارات اور شہید مقاومت سے اپنی وابستگی اس عہد کیساتھ کہ ہم اس عہد کو نبھائیں گے، اس راستے کو جاری رکھیں گے، اس ہدف کو حاصل کرنے کیلئے ہر قربانی پیش کریں گے، جس کیلئے آپ نے اپنی جان نچھاور کی، وہ کردار کبھی نہیں مرے گا، جس کو دیکھ کر اسرائیل نے آپ کو ہم سے جدا کیا، وہ کردار ہر دور میں زندہ رہیگا، فرزندان روح اللہ میں سے ہر دور میں یہ کردار ادا کرنے والے سامنے آتے رہینگے۔

شہید مقاومت کے جنازہ میں دنیا بھر سے شریک ہونے والے بھاری وفود کیساتھ اہل لبنان کی اپنے خانوادوں، اپنے بچوں، اپنے بوڑھوں بالخصوس ہر طبقہ زندگی و مکتب و مذہب کی نمائندگی اور لبیک یاحسن نصراللہ و “انا علی العھد” کے شعار بہت ہی متاثر کن ماحول کا تاثر دے رہے تھے، جبکہ اسرائیل کا اس دوران جنگی طیاروں کے غول میں نیچی پرواز کرتے ہوئے خوف و دہشت پھیلانے کا خام خیال بھی باطل ثابت ہوا کہ لوگ ان جنگی طیاروں کو دیکھ کر پر زور اور پرجوش انداز میں لبیک یا نصراللہ کے نعرے لگاتے ہوئے مکے لہرا رہے تھے۔ بعض تو جوتے بھی دکھا رہے تھے، یعنی تمہارے بموں کو ہم جوتوں کی نوک پر رکھتے ہیں۔ یہ وہ امت ہے، جسے امت حزب اللہ کہا جاتا ہے، جسے فرزندان خمینی کہا جاتا ہے۔ یہ فرزندان انقلاب اسلامی ہیں، یہ امام سید موسیٰ صدر کے لگائے ہوئے پودے کی مضبوط جڑوں جن میں ہزاروں پاکباز شہداء کا پاک لہو سینچا گیا ہے، ان کا قبیلہ ہے۔ اس قبیلہ کا ہر فرد منفرد کردار کا حامل ہے۔ بقول شاعر

میرے قبیلہء سرکش کا تاجور ہے، وہ شخص
بڑھے جو دار کی جان پیغمبروں کی طرح

گذشتہ روز جنازے کے اجتماع میں ہم نے آہوں، سسکیوں، الم و درد اور غموں سے بھرپور ملت لبنان، امت حزب اللہ کو پرعزم، پرجوش اور متعہد دیکھا، ان کو دیکھ کر ہر ایک کو حوصلہ ہوا، ہر ایک نے اس عہد کو دہرایا اور سید کیساتھ وفا کی حلف برداری کی، ہم مغموم، دکھی اور کرب و الم کی کیفیات میں شہید کی ذات کیساتھ اس عزم کو دہراتے ہیں کہ ان کا راستہ زندہ رکھیں گے۔ ان کی جلائی شمع مزاحمت کو اپنے لہو سے روشن رکھیں گی اور کربلا والوں کی طرح کبھی بھی پیٹھ نہیں دکھائیں گے۔

اک جنازہ اٹھا مقتل سے عجب شان کیساتھ
جیسے سج کر کسی فاتح کی سواری نکلے

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *