[]
وہ میری جوانی کا زمانہ ، جب مجھے اسلام سے شدید نفرت تھی، لیکن آج میں اسلام کی شیدائی ہوں اور اسلام مجھے اپنی جان سے زیادہ عزیز ہے ۔ کئی مرتبہ اسلام قبول کرنے کی پاداش میں مجھے اسلام دشمنوں کی طرف سے شدید نقصانات کا سامنا بھی کرنا پڑا ،ایک مرتبہ مجھ پر حملہ ہوا، لیکن اللہ نے مجھے زندہ رکھا اور میری جان بچنے کی وجہ شاید یہ رہی کہ میں اسلام کیلئے خود کو وقف کردوں، چنانچہ میں نے امریکی خواتین میں اسلام کے تعلق سے بیداری پیدا کرنے کیلئے مہم شروع کی۔
اللہ کا شکر ہے کہ باد مخالف کے تندوتیز جھونکوں کے باوجود تبلیغ اسلام کی تحریک جاری ہے۔ آپ کو شاید تعجب ہو کہ عورتوں کو اسلام کی طرف راغب کرنا آسان ہے ، جبکہ مرد اسلام کی طرف دیر میں راغب ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام عورتوں کے حقوق کا محافظ ہے،دنیا کا کوئی دوسرا مذہب ایسا نہیں ہے جس کا دامن عورتوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے وسیع ہو۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ میں مردوں کی بہ نسبت عورتیں زیادہ آسانی کیساتھ اسلام قبول کرلیتی ہیں۔ عورتوں کی نفسیات کے بارے میں یہ بات بہت مشہور ہے کہ ان میںہٹ دھرمی کا زیادہ مادہ ہوتا ہے اور آسانی کے ساتھ کسی چیز کو قبول کرنا ان کیلئے مشکل بن جاتا ہے ۔
مذہب کے معاملے میں عورتیں زیادہ حساس ہوتی ہیں، لیکن یہ کس قدر عجیب بات ہے کہ اسلام کے معاملہ میں عورتیں بہت جلد اسلامی تعلیمات کی طرف متوجہ ہوجاتی ہیں ۔عورتوں کو اسلام نے جو حقوق عطا کئے ہیں ان میںبڑی کشش ہے۔یہ کشش ہی عورتوں کو اسلام کے دائرے میںلاتی ہے۔ خود میری اپنی زندگی اس کی مثال ہے۔ میں ایک کیتھو لک عیسائی خاندان میںپیدا ہوئی اور ابتدائی تعلیم ایک ایسے مذہبی اسکول میںحاصل کی ، جہاں مسلمانوں کے خلاف لڑکیوں کا ذہن تیار کیا جاتا تھا۔ میری طبیعت میں چونکہ جذباتیب زیادہ ہے ، اس لیے شاید میں اپنے اسکول میں ایک ایسی عیسائی لڑکی تھی ، جس کو اسلام مخالف تحریک میں شامل ہونے کیلئے خصوصی تربیت کے واسطے منتخب کیا گیا تھا۔ پندرہ دن کا تربیتی کیمپ تھا جہاں ایک خاص طرح کی تربیت کا نصاب مکمل کرنے کیلئے مجھے بھیجا گیا۔
میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ اس تربیتی کیمپ میں پہنچنے کے بعد میری نفسیاتی اور ذہنی کیفیت بدل جائے گی اور اسلام کو سمجھنے کیلئے مجھے راستہ مل جائے گا۔ تین دن میں مجھے یہ تربیت دی گئی کہ مسلمان جنسی درندے ہوتے ہیں اور ان کو عیسائیت کی طرف راغب کرنے کیلئے لڑکیاں بہت کارآمد ثابت ہوتی ہیں۔ مجھ سے کہا گیا کہ تربیت پوری کرنے کے بعد کسی مسلم بستی میں جاکر مسلمان نوجوانوں کو میں اپنی طرف متوجہ کروں اور انہیں عیسائی مذہب میں داخل کرادوں۔
یہ بات میرے ذہن کیلئے قابل قبول نہیں تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میں مسلمانوں عورتوں کو پردہ پوش دیکھتی تھی اور یونیورسٹی کی زندگی میں جن مسلم نوجوانوں کو میں نے تعلیم حاصل کرتے ہوئے دیکھا تھا وہ باریش تھے اور ان کے سرپر ٹوپیاں نظر آتی تھیں۔ تربیتی کیمپ میں جو کچھ سمجھا یا جارہا تھا، وہ میرے عملی مشاہدہ کی بالکل خلاف تھا اس لیے میرے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوا کہ ذاتی طور پر مجھے اسلام کا مطالعہ کرنا چاہیے ۔ مجھے جو کچھ سمجھایا گیا ہے یا جس کام کے کرنے کیلئے مجھے آمادہ کیا جارہا ہے، وہ درست ہے یا نہیں ، ایک لکچر میں ایک پادری نے یہاں تک کہا کہ کوئی لڑکی اگر کسی مسلمان کو عیسائی بنانے کیلئے عزت وآبروکا نذرانہ پیش کردے تو مسیح کی طرف سے اس کو اجر ملے گا۔ لیکن میرا مزاج اس طرح کے کسی عمل کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں تھا۔
تربیتی کیمپ کا نصاب مکمل کرنے کے بعد میری طبیعت میں شدید قسم کا اضطراب پیدا ہوگیا اور میں نے طے کرلیا کہ اسلام کا مطالعہ کرکے میں حقیقت حال ضرور معلوم کروں گی۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ زندگی میں حاصل ہونے والے تجربات سے نفسیاتی کیفیت بدل جاتی ہے اور فکر ونظر کے نئے چراغ روشن ہوجاتے ہیں۔ میرے ساتھ بھی یہی معاملہ پیش آیا۔ میں نے فیصلہ کرلیا کہ اگر اسلامی تعلیمات مجھے پسند آئیں تو میں زندگی کے سفر کیلئے ایک نئی راہ ضرور تلاش کروں گی۔
چنانچہ میں نے سب سے پہلے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا اسلام عورتوں کو غلام بناتا ہے؟کیا اسلامی تعلیمات سے عورتوں کے حقوق غصب ہوتے ہیں؟میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب میں نے اپنے مطالعہ سے یہ جانا کہ عیسائی مذہب میں عورتوں کے حقوق کا کوئی باب موجود نہیں ہے جبکہ اسلام میں عورتوں کے حقوق متعین ہیں،بعض حالات و معاملات میں عورتوں کے حقوق مردوں سے زیادہ ہیں وہ مردوں کی غلام نہیں بلکہ ان کو گھر کی زندگی میں حاکمانہ حیثیت حاصل ہے۔
وہ اپنی حدود میں رہ کر زندگی کی تمام ذمہ داریوں کو بطریق احسن پورا کرسکتی ہیں۔ ترقی اسلام میں ممنوع نہیں ہے، تمام خواتین کو تعلیم حاصل کرنے کیلئے پابند بنایا گیا ہے۔ مردوں کو اس کی اجازت نہیں ہے کہ وہ عورتوں پر ظلم کریں ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کو حکم دیا کہ وہ عورتوں کے ساتھ رحم دلی اور نیکی کا برتائو کریں۔ اسلام کی تعلیمات سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ تہذیب وتمدن کی ترقی کیلئے اسلام نے عورتوں پر بڑی ذمہ داری عائد کی ہے جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے ، دنیا کا کوئی دوسرا مذہب ایسا نہیں ہے جو عورتوں کو تہذیب وتمدن کا امین بناتا ہو اور جس کی ہدایات میںیہ حکم شامل ہو کہ عورتیں اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں اور اسلام کو شاندار اور عظیم شخصیات دیں۔
ان تمام وجوہات کی بناء پر میں نے فیصلہ کرلیا کہ اسلام کو یقینی طور پر میں قبول کرلوں۔ واقعات تو بہت ہیں، لیکن چنندہ طور پر بعض چیزیں ذہن میں اس طرح محفوظ ہیں کہ ان کو بھولنا میرے لیے ممکن نہیں ہے،جب میں نے اسلام قبول کیا تو میرے خاندان میں ایک طوفان آگیا۔ مجھے زدوکوب کیا گیا جس کے نشانات آج بھی میرے جسم پر موجود ہیں اور جب ان نشانات پر میری نظر جاتی ہے تو ماضی کی یادیں بے تحاشہ آنے لگتی ہیں لیکن میں پہلے ہی یہ کہہ چکی ہوں کہ اسلام جس کے دل میں اتر جاتا ہے تو پھر وہ سینہ سے باہر نہیں نکلتا۔
ایک مسلمان مرد ہو یا عورت اسلام کو اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتا ہے۔ میںنے اپنی دنیا کو خود بنایا۔ میں شکر گذار ہوں، ان مسلم خواتین کی جنہوںنے اس پرفتن دور میں میری مدد کی اور میرے ایمان میں تازگی عطا کی۔ایک مسلمان روشن خیال نوجوان میری زندگی میں آیا جس سے میں نے شادی کی اور ہم دونوں نے فیصلہ کرلیا کہ اسلام کی تعلیمات کو ہم دوسروں تک پہنچائیں گے ۔ وہ چراغ ہی کیا جس کی روشنی سمٹی رہے چراغ تو وہ ہے جس کی روشنی دور دور تک پھیل جائے اور بے بصیرت بھی بصارت والے بن جائیں۔
قرآن کریم میں ہدایت موجود ہیں کہ ہر مسلمان چاہے وہ مردہو یا عورت ، اس کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ اسلام کی تعلیمات کو دوسروں تک پہنچائے اور اپنی ذات کو اسلامی تعلیمات کا پیکر بنائے ۔ اگر دنیا کے سارے مسلمان مرد وعورت یہ فیصلہ کرلیں کہ وہ اپنے ماحول میں اسلامی تعلیمات کو اجاگر کریں گے تو یقینی طور پر دنیا کی آبادی کا بہت بڑا حصہ اسلام قبول کرلے گا۔ بہر حال وہ لڑکی جس کا نام روزی تھا اور جو اسلام مخالفت تحریک میں شامل ہو کر تربیتی کیمپ میں گئی تھی آج مریم حنیف ہے اور اس نے نہ جانے کتنے اجتماعات کو خطاب کیا ہے۔ اللہ نے بہت سی عورتوں کو میری آواز پر لبیک کہنے کی توفیق عطا کی۔ میں زندگی کے آخری پڑائو پر ہوں، بس آرزو یہ ہے کہ اسلام کی دولت اپنے سینہ میں لے کر رخت سفر باندھ لوں۔
٭٭٭