میرے والد رہبر معظم کے شاگرد تھے، شہید حسن نصراللہ کی بیٹی کا انٹرویو

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حزب اللہ کے شہید سیکریٹری جنرل سید حسن نصراللہ کی بیٹی سیدہ زینب نصراللہ نے اپنے والد کی نجی اور خاندانی زندگی کے کئی پوشیدہ پہلوؤں کو اجاگر کیا اور انہیں اپنا فخر قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ بچپن میں انہیں دیگر بچوں کی طرح اپنے والد کی رفاقت حاصل نہیں تھی۔ میرے والد کی مصروفیات کی وجہ سے میں ان کے ساتھ وہ تعلق قائم نہ کر سکی جو عام طور پر بیٹیوں کا اپنے والد سے ہوتا ہے، لیکن میری والدہ نے ہماری تربیت میں نمایاں کردار ادا کیا۔ وہ والد کے اکثر غیر حاضر ہونے کے باوجود تربیتی اصولوں میں ان کے ساتھ ہم آہنگ تھیں۔

زینب نصراللہ نے مزید کہا کہ سید حسن نصراللہ نے اپنی زندگی میں کچھ اصولی حدیں مقرر کی تھیں اور وہ انہی کی سختی سے پاسداری کرتے تھے۔ انہوں نے ہمیں انہی اصولوں پر تربیت دی۔ وہ ایک مثالی انسان تھے اور ان کا اخلاق اہل بیت علیہم السلام کے اخلاق کے عین مطابق تھا۔ میرے والد انتہائی شفاف، جذباتی اور مہربان شخصیت کے حامل تھے۔ وہ ہم پر کبھی کچھ مسلط نہیں کرتے تھے، بلکہ ان کی نصیحتیں اتنی مؤثر ہوتیں کہ ہم خود بخود قائل ہو جاتے۔

زینب نصراللہ نے اپنے بھائی شہید ہادی کی شہادت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کے والد نے ان پر کبھی جہاد کا دباؤ نہیں ڈالا، تاہم ہادی کی شہادت نے نہ صرف ہمارے اندر مزید حوصلہ اور یقین پیدا کیا بلکہ ہمیں شہداء کے خانوادوں کے قریب کردیا۔

حزب اللہ لبنان کے شہید سیکرٹری جنرل کی بیٹی زینب نصراللہ نے اپنے اہل خانہ کی نجی محفلوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کے نواسے ہمیشہ ماہ رمضان کا انتظار کرتے تھے کیونکہ اس مقدس مہینے میں پورے خاندان کے لیے اجتماعی افطار کا اہتمام کیا جاتا تھا۔

انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ سیکیورٹی پابندیاں صرف ان کے والد کی زندگی تک محدود نہیں تھیں، بلکہ شہادت کے بعد بھی ان کے خاندان کو سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر ان کے عارضی مزار کی زیارت سے روک دیا گیا۔

زینب نصراللہ نے اپنے شہید شوہر حسن قصیر کو بھی یاد کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی جہادی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے شہید ہوئے۔ وہ نوجوانی سے ہی ایک مجاہد تھے اور اپنی زندگی کا اختتام شہادت پر کیا۔ وہ ہمیشہ محاذ جنگ کی صف اول میں موجود رہے۔ حسن قصیر نے متعدد فوجی آپریشنز میں شرکت کی، جن میں 1999 میں بیت یاحون پر حملے کی معروف کارروائی بھی شامل تھی۔

زینب نصراللہ نے اپنے شوہر اور والد کے تعلق کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کے شوہر سید حسن نصراللہ سے بے حد محبت کرتے تھے۔ یہ محبت محض داماد ہونے کی وجہ سے نہیں تھی بلکہ ایک قائد اور کارکن کے درمیان خلوص اور ایثار کا جذبہ تھا۔

انہوں نے کہا کہ والد کی جدائی کا غم ناقابلِ بیان ہے۔ ہم عوام کے درد کو سمجھتے ہیں جو انہیں کھونے کے بعد محسوس کر رہے ہیں، لیکن ذرا سوچیں کہ ان کے اہلِ خانہ کے لیے یہ جدائی کیسی ہوگی؟

زینب نصراللہ نے اپنے والد کی عوام سے گہری وابستگی کے بارے میں کہا کہ وہ عوام کو اپنے خاندان کی طرح سمجھتے تھے اور ہمیشہ خود کو ان کے لیے ذمہ دار محسوس کرتے تھے۔

حزب اللہ لبنان کے شہید سیکرٹری جنرل کی بیٹی زینب نصراللہ نے اپنے والد کے ساتھ آخری رابطے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ عاشورا سے قبل ہوا تھا۔ میرے والد ہمیشہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ ہمیں لوگوں کو اللہ سے قریب کرنا چاہئے۔ وہ نہ صرف عوام کے معاشی اور سماجی حالات کی بہتری کے لیے کوشاں رہتے، بلکہ ان کے ایمان کو محفوظ رکھنے کے لیے بھی بے حد محنت کرتے تھے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ سید حسن نصراللہ نے اپنی آخری ملاقات میں شہید سید عباس موسوی کی ایک نصیحت کو دہرایا، جو وہ ہمیشہ عوام سے کہا کرتے تھے کہ ہم خلوص اور صدق دل سے آپ کی خدمت کرتے ہیں۔
یہ جملہ ہمیشہ ان کے والد کے پیش نظر رہا، اور وہ عوام کی ضروریات کو پورا کرنے میں کبھی غافل نہ ہوئے۔ یہی وجہ تھی کہ ان کی تقریریں ہر عمر، ہر طبقے اور ہر ثقافت کے افراد کے لیے مؤثر اور جامع ہوتی تھیں۔

زینب نصراللہ نے کہا کہ ان کے والد امت مسلمہ کے لئے باپ کی ہمدردی رکھتے تھے اور ان کی شہادت کے بعد امت خود کو یتیم محسوس کررہی ہے۔ سید حسن نصراللہ اور عوام کے درمیان محبت کا رشتہ اتنا گہرا تھا کہ شاید ان کا فراق لوگوں کے لیے اپنے بچوں، عزیزوں اور شریک حیات کی جدائی سے بھی زیادہ دردناک ہو۔

انہوں نے کہا کہ ان کے والد امام موسی صدر سے گہرا فکری اور روحانی تعلق رکھتے تھے اور ان کو اپنی زندگی کے ہر پہلو میں بطور نمونہ دیکھتے تھے۔ اسی تعلق کی بدولت میرے والد بھی قیادت، ایمان اور انسانیت کا ایک منفرد نمونہ بنے۔

زینب نصراللہ نے بتایا کہ ان کے والد شہادت تک تحصیل علم میں مصروف رہے اور رہبر معظم سید علی خامنہ ای سے درس خارج کا علم حاصل کرتے رہے، جو حوزہ علمیہ میں اعلی ترین علمی سطح سمجھی جاتی ہے۔

آخر میں انہوں نے کہا کہ اگرچہ فتح حاصل ہوچکی ہے لیکن ہم خود کو یتیم محسوس کرتے ہیں۔ عوام بھی یہی محسوس کرتے ہیں اور آج بھی ان کے منتظر ہیں کہ وہ آئیں اور اس فتح کی خوشخبری انہیں خود دیں۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *