سید حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد کے ابتدائی لمحات ان کے بیٹے کی زبانی

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حزب اللہ کے شہید سیکریٹری جنرل سید حسن نصراللہ کے فرزند سید جواد نصراللہ نے یمنی نیوز چینل کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اپنے والد کی شہادت کی اطلاع ملنے کے ابتدائی لمحات کے بارے میں بات کی۔

انٹرویو کے دوران جب ان سے پوچھا گیا کہ سید مقاومت کی شہادت کی خبر سن کر آپ کی روحانی کیفیت میں کیا تبدیلی آئی؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ سب سے پہلے میں شہید کے جسد خاکی کو دیکھنے کے لیے جانا چاہتا تھا۔ یہ میرے لیے پہلا جھٹکا تھا۔ لیکن چونکہ ہمیں اللہ تعالی پر یقین ہے، اور یہی یقین ہمیں والد نے سکھایا تھا۔ شہادت، حالات کی سختی، حیرت اور صدمے کے باوجود ہم اللہ تعالی پر یقین رکھنے والے لوگ ہیں۔ ہم قرآن اور اللہ کے وعدوں پر ایمان رکھنے والے لوگ ہیں اور یہ یقین ان شاء اللہ کبھی متزلزل نہیں ہوگا۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ شہادت کی خبر سننے کے بعد سب سے زیادہ کس چیز کی فکر ہوئی اور کس چیز نے آپ اور آپ کے بھائیوں کو اس صدمے میں تسلی دی؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ سب سے زیادہ میں مجاہدین اور مقاومت کے حامیوں کے لیے دعا کررہا تھا۔ ہمیں کئی بار لبنان چھوڑنے کا مشورہ دیا گیا لیکن ہم نے انکار کر دیا۔ اس فیصلے میں سب سے آگے ہماری والدہ تھیں۔

سید جواد نصراللہ نے اپنی والدہ کے عزم و حوصلے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ مائیں، بہنیں یا بیویاں جذبات کی وجہ سے چاہتی ہیں کہ خاندان خطرے سے دور رہے لیکن حقیقت میں ہماری والدہ وہ پہلی شخصیت تھیں جنہوں نے لبنان چھوڑنے سے انکار کیا۔ والدہ نے کہا کہ ہمیں عوام کے ساتھ رہنا چاہیے۔ ہم ان کے ساتھ شہید ہوں گے یا ان کے ساتھ فتح حاصل کریں گے۔

سید جواد نصراللہ نے اپنے والد سید حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد کے لمحات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہی وہ راستہ تھا جو سید نے اپنی زندگی اور شہادت کے لیے چُنا تھا۔ جذباتی لحاظ سے بھی یہ ان کی دیرینہ خواہش تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ مؤمن جس قدر صبر کے ساتھ اپنے راستے پر ثابت قدم ہو تب بھی اسے اللہ کی خاص عنایت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اللہ ہی دلوں پر سکون نازل کرتا ہے، صبر و رضا کی دولت عطا کرتا ہے اور شیطان کے اثرات سے محفوظ رکھتا ہے۔

سید جواد نے کہا ہمارے گھر میں کبھی بھی یہ سوال نہیں اٹھا کہ ‘اے خدا! کیوں؟’ ہم مسلمان ہیں اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ یہ شہادت سب سے عظیم اور مقدس راستے میں میدان جہاد میں نصیب ہوئی۔ میرے لیے یہ سب سے خوبصورت انجام تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ کچھ لوگوں نے مجھ سے کہا کہ میں نے یہ کیوں کہا کہ اللہ نے سید کو یہ کرامت عطا کی کہ ان کا جسم سالم رہا؟ حالانکہ ہم سب شہادت کی وہ صورت چاہتے ہیں جس میں ہمارے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں جیسا کہ سید کی بھی یہی تمنا تھی، اور حاج قاسم سلیمانی نے بھی یہی دعا کی تھی اور انہیں نصیب بھی ہوئی۔ میں نے یہ اس لیے کہا کیونکہ سید کے خلاف دشمنی کا پیمانہ بے حد وسیع تھا۔ ان پر تقریباً 84 ٹن دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا۔ اس شدید نفرت، درندگی اور وحشیانہ حملے کے باوجود ان کا جسم سالم رہا۔ یہی ایک الہی کرامت ہے۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *