مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، کویتی تجزیہ کار عبداللہ الموسوی نے کہا کہ طوفان الاقصی آپریشن نے دنیا کی توجہ فلسطین پر مرکوز کی اور اسے تمام آزاد اور شریف انسانوں کے لیے اولین مسئلہ بنا دیا۔ 7 اکتوبر کو فلسطینی مقاومت کی جانب سے صہیونی حکومت پر کاری وار کی وجہ سے خلیج فارس کے ممالک کے عوام اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے اور صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات کی کوششوں کے خلاف مزید پرعزم ہو گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ طوفان الاقصی کا ایک اہم اثر یہ تھا کہ اس واقعے نے خلیج فارس کے عوام میں فلسطین کے عوام کے ساتھ ہونے والی بے انصافی کے بارے میں آگاہی ایجاد کی اور صہیونی حکومت کی جانب سے بعض عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے شرمناک منصوبوں کو سامنے لایا۔ 7 اکتوبر کے بعد اسرائیل کی حامی کمپنیوں کا بائیکاٹ کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔
الموسوی نے کہا کہ خلیج فارس کے عوام کی ہر گزرتے دن کے ساتھ فلسطین کے مسئلے میں دلچسپی بڑھ رہی ہے۔ اگرچہ خلیج فارس کی بعض حکومتیں دو ریاستی حل اور عرب امن منصوبے کو تسلیم کرتی ہیں مگر عوام کا ماننا ہے کہ فلسطین کی سرزمین صرف فلسطینیوں کی ہے اور انہیں صہیونیوں سے آزاد کرانے کی ضرورت ہے۔