جے پور: راجستھان کی بی جے پی حکومت نے ریاست کے سرکاری اسکولوں میں اردو کی جگہ سنسکرت کو تیسری زبان کے طور پر متعارف کرانے کا حکم دیا ہے، جس پر اساتذہ اور سماجی تنظیموں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ اس فیصلے کے تحت، وہ اسکول جہاں اردو پڑھنے والے طلبہ نہیں ہیں، وہاں اب سنسکرت کو پڑھایا جائے گا۔
ریاست کے محکمہ ثانوی تعلیم نے بیکانیر کے ناپاسر گورنمنٹ ہائر سیکنڈری اسکول میں اردو ادب کی جگہ سنسکرت ادب کو شامل کرنے کا حکم جاری کیا ہے، جو اپریل 2025 سے نافذ العمل ہوگا۔ اس سے قبل جئے پور کے مہاتما گاندھی سیکنڈری اسکول اور کئی دیگر اسکولوں میں بھی ایسے ہی احکامات دیے جا چکے ہیں۔
محکمہ تعلیم کے ڈائریکٹر آشیش مودی نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ جن اسکولوں میں اردو پڑھنے والے طلبہ نہیں ہیں یا دلچسپی نہیں رکھتے، وہاں سنسکرت کو متبادل کے طور پر متعارف کرایا جا رہا ہے۔ انہوں نے بیکانیر کے ناپاسر اسکول کی مثال دی، جہاں صرف ایک طالب علم اردو پڑھ رہا تھا، جو اب بارہویں کلاس مکمل کر کے کالج جا رہا ہے۔ ان کے مطابق، چونکہ وہاں مزید کوئی اردو پڑھنے والا نہیں ہے، اس لیے اردو کی جگہ سنسکرت کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
اس فیصلے کے خلاف مختلف سماجی تنظیموں اور اردو کے اساتذہ نے احتجاج کیا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت اردو کو اسکولوں سے ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جو ریاست میں لسانی تنوع کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ اساتذہ نے الزام لگایا ہے کہ بی جے پی حکومت شعوری طور پر اردو کو کمزور کر رہی ہے اور سنسکرت کو زبردستی مسلط کیا جا رہا ہے۔
دریں اثنا، ریاستی وزیر داخلہ جواہر سنگھ بے دھم کے ایک متنازع بیان نے معاملے کو مزید ہوا دے دی ہے۔ ان کا بیان سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہا ہے، جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ اردو کے اساتذہ کو جعلی ڈگریوں کے ذریعے بھرتی کیا گیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ کانگریس حکومت نے جان بوجھ کر سنسکرت کی جگہ اردو کو فروغ دیا تھا، جسے اب درست کیا جا رہا ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب اردو کے معاملے پر تنازع کھڑا ہوا ہو۔ اس سے قبل بھی بی جے پی حکومت کے دور میں اردو کو نصاب سے نکالنے یا اس کی حیثیت کمزور کرنے کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ تاہم، حکومت کا مؤقف ہے کہ اس کا مقصد صرف تعلیمی بہتری اور طلبہ کے مفاد کو مدنظر رکھنا ہے، نہ کہ کسی مخصوص زبان کے خلاف اقدام اٹھانا۔
اساتذہ اور اردو تنظیموں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت واقعی تعلیمی بہتری چاہتی ہے تو اسے اردو کو بھی باقی رکھنے دینا چاہیے اور طلبہ کو اپنی پسند کی زبان منتخب کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔ تاہم، فی الحال ایسا لگ رہا ہے کہ بی جے پی حکومت اپنے فیصلے پر قائم ہے، اور آنے والے دنوں میں یہ معاملہ مزید طول پکڑ سکتا ہے۔