واشنگٹن کی جانب سے معاہدوں پر عملدرآمد کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: ایرانی عوام نے تمام تر پابندیوں اور مشکلات کے باوجود 22 بہمن کو انقلاب اسلامی کی 46 ویں سالگرہ کے دن انقلاب اسلامی کے ساتھ اپنی وابستگی اور حمایت کا اظہار کیا ہے۔ لاکھوں لوگوں نے ریلیوں اور تقریبات میں شرکت کرکے یہ پیغام دیا کہ 46 سال گزرنے کے باوجود وہ انقلاب اسلامی کے اصولوں کے ساتھ وفادار ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں واپسی کے بعد دنیا بھر میں بحران کی کیفیت برپا ہوگئی ہے۔ ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں صدر ٹرمپ نے نئے معاہدے اور پابندیوں کا ذکر کیا ہے جس کے بعد ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والے جوہری معاہدہ دوبارہ موضوع بحث بن گیا۔ مبصرین امریکہ کی جانب سے 2018 میں عالمی جوہری سے علیحدگی کے باعث مذاکرات اور معاہدے کو زیادہ قابل اعتماد نہیں سمجھتے ہیں۔ 

مہر نیوز نے ایران کے جوہری پروگرام اور امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے بارے میں لبنان سے تعلق رکھنے والے بین الاقوامی امور کے ماہر یحیی حرب سے گفتگو کی ہے جو قارئین کی خدمت میں پیش کی جاتی ہے:

مہر نیوز: مختلف موضوعات پر مذاکرات کے حوالے سے دنیا کے ممالک امریکہ پر اعتبار کرنے میں جھجھک محسوس کرتے ہیں؛ اس کی بنیادی وجہ کیا ہے؟

یحیی حرب: کچھ بنیادی عوامل ہیں جن کی وجہ سے کئی ممالک بین الاقوامی مذاکرات میں امریکہ پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہیں۔ صدر ٹرمپ کو معاہدوں کا دشمن کہا جاسکتا ہے کیونکہ انہوں نے اپنے پہلے دور صدارت میں کئی فیصلے ایسے کیے جن کی وجہ سے امریکہ کی ساکھ شدید متاثر ہوئی۔

صدر ٹرمپ نے بین الاقوامی اور دوطرفہ معاہدوں سے علیحدگی کے کئی اقدامات کیے۔ جون 2017 میں پیرس ماحولیاتی معاہدے سے دستبرداری کے بعد، اکتوبر 2017 میں امریکہ نے یونیسکو کی رکنیت بھی چھوڑ دی۔ مئی 2018 میں ٹرمپ نے یکطرفہ طور پر ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے علیحدگی اختیار کرلی حالانکہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی نے تصدیق کی تھی کہ ایران معاہدے کی شرائط پر کاربند ہے۔ جون 2018 میں امریکہ اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے بھی نکل گیا۔ اکتوبر میں اس نے ویانا معاہدے کے تحت تنازعات کے حل کے رضاکارانہ پروٹوکول سے علیحدگی اختیار کرلی۔

تقریبا 145 سال پرانا بین الاقوامی ڈاک خدمات کا معاہدہ بھی ٹرمپ کی وعدہ خلافیوں سے محفوظ نہ رہ سکا۔ فروری 2019 میں  ٹرمپ نے بحیرۂ روم کے جوہری فریقین کے معاہدے سے علیحدگی اختیار کی، اور اپریل 2019 میں، امریکہ اقوامِ متحدہ کے اسلحہ کنٹرول معاہدے سے باہر نکل گیا، جو جنگی جرائم میں ملوث افراد کو اسلحہ کی فروخت پر پابندی لگاتا تھا۔ ٹرمپ کے پہلے دورِ حکومت کا ایک اور متنازعہ فیصلہ جولائی 2020 میں عالمی ادارۂ صحت سے امریکہ کا انخلا تھا۔

20 جنوری 2025 کو وائٹ ہاؤس واپسی کے بعد ٹرمپ نے دوبارہ کئی بین الاقوامی اداروں سے امریکہ کو نکالنے اور مالی امداد کی بنیادی اسکیموں کو معطل کرنے کے اقدامات کیے۔ ان میں عالمی ادارۂ صحت، انسانی حقوق کونسل، فلسطین میں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے انروا اور بین الاقوامی ترقیاتی ایجنسی سے امریکہ کا خروج شامل ہے۔ ان اقدامات کی وجہ سے عالمی نظام کو نقصان پہنچا ہے اور امریکہ کے دشمنوں سے زیادہ اس کے دوست ممالک ناراض ہورہے ہیں۔ سب سے زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ ٹرمپ ان اقدامات کو اپنے اتحادیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اور ان کے ساتھ تاریخی تعلقات کی پروا کیے بغیر اٹھا رہے ہیں۔ یہی وہ عوامل ہیں جن کی بنا پر عالمی برادری امریکی پالیسیوں کو حیرت اور تشویش کے ساتھ دیکھ رہی ہے۔

مہر نیوز: امریکہ کے بین الاقوامی اداروں اور معاہدوں سے نکلنے کے فیصلوں کی کیا توجیہہ ہوسکتی ہے؟ ان اقدامات کی وجہ سے عالمی برادری امریکہ کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کو کس نظر سے دیکھے گی؟

یحیی حرب: عالمی اداروں اور معاہدوں سے نکلنے کے حوالے سے صدر ٹرمپ کے ان فیصلوں کے پیچھے کئی عوام ہیں۔

1. اقتصادی عوامل

امریکہ کا دعوی ہے کہ وہ بین الاقوامی اداروں کی مالی معاونت میں غیر متناسب حصہ ادا کر رہا ہے جبکہ دیگر ممالک اس کے فوائد سے مستفید ہو رہے ہیں۔ اس لیے امریکہ کا مطالبہ ہے کہ دوسرے ممالک بھی ان اداروں کی مالی امداد میں زیادہ حصہ ڈالیں۔

2. سیاسی عوامل

امریکہ نے یونیسکو اور امدادی ایجنسی انروا جیسے کچھ اداروں پر اسرائیل مخالف مؤقف رکھنے یا ان میں مبینہ یہود دشمنی کے رجحانات کا الزام عائد کیا ہے۔ اسی تناظر میں امریکہ نے بین الاقوامی عدالت انصاف پر بھی پابندیاں عائد کی ہیں۔

3. بدعنوانی اور غیر مؤثر کارکردگی

امریکہ کا مؤقف ہے کہ بعض ادارے مثلا عالمی تجارتی تنظیم بدعنوانی اور غیر مؤثر فیصلوں کی وجہ سے عالمی ترقی میں اپنا مؤثر کردار ادا نہیں کر رہے۔ اگرچہ اس نے ڈبلیو ایچ او سے نکلنے کی دھمکی دی تھی، لیکن عملی طور پر ابھی تک اس کا اقدام نہیں کیا گیا۔

امریکہ کی جانب سے اپنے مفادات کو عالمی مفادات پر ترجیح دینا کوئی نئی بات نہیں، لیکن حالیہ اقدامات میں بین الاقوامی پروٹوکولز کی بھی کھلی خلاف ورزی کی جارہی ہے۔ اس کے نتیجے میں امریکہ پر عالمی برادری کا اعتماد مجروح ہورہا ہے۔ امریکہ کسی بھی وقت معاہدوں سے نکل سکتا ہے، جس سے دوسرے ممالک کے ساتھ کیے گئے وعدے غیر معتبر محسوس ہوتے ہیں۔ امریکہ کے ان اقدامات کی وجہ سے اتحادی ممالک کی ساکھ بھی متاثر ہورہی ہے کیونکہ وہ ہمیشہ امریکی پالیسیوں کے حامی رہے ہیں۔ عالمی نظم و نسق کمزور ہو ؤرہا ہے کیونکہ عالمی اداروں کی حیثیت متزلزل ہونے سے بین الاقوامی مسائل کو حل کرنے کے لیے اجتماعی کوششیں بھی متاثر ہورہی ہیں۔ امریکہ کے بین الاقوامی معاہدوں سے بار بار نکلنے کی پالیسی ایک سفارتی حربہ ہے۔ اس کا مقصد دوسرے ممالک پر دباؤ ڈال کر اپنی شرائط منوانا، زیادہ مراعات حاصل کرنا اور عالمی معاملات میں اپنی برتری کو برقرار رکھنا ہے۔

دنیا امریکہ کے بغیر بہت بہتر ہوگی۔ عالمی صہیونی امپیرلیزم دنیا میں موجود مشکلات، بحرانوں اور جنگوں کی بنیادی وجہ ہے۔ خود کو دوسروں سے برتر سمجھنے کی ذہنیت نے یہ حالات پیدا کیے ہیں۔ اسی وجہ سے دوسروں کے اندر استقامت کی جرائت ٹرمپ اور ان کے ساتھیوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتی ہے۔

مہر نیوز: ٹرمپ کی جانب سے عالمی معاہدوں کے ساتھ گذشتہ سلوک کے بعد آئندہ مختلف ممالک کے امریکہ کے ساتھ مذاکرات پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں؟ مخصوصا ایٹمی ہتھیاروں اور عالمی ماحولیات جیسے حساس موضوعات پر مذاکرات کیا رخ اختیار کرسکتے ہیں؟

یحیی حرب: میرے خیال میں ماضی میں ہونے والی وعدہ خلافیوں کے پیش نظر امریکہ کے بین الاقوامی معاہدوں پر باقی رہنے کی کوئی بھی پائیدار ضمانت موجود نہیں۔ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ امریکہ مستقبل میں کسی بھی مذاکرات یا معاہدے پر مکمل طور پر کاربند رہے گا۔ یہ مسئلہ کسی ایک صدر یا سیاسی جماعت تک محدود نہیں بلکہ امریکی عمومی پالیسی بن چکی ہے جس میں ملکی مفادات کے مطابق کسی بھی وقت معاہدوں سے نکلنے کا رجحان پایا جاتا ہے۔

مثلا سابق صدر بائیڈن نے انتخابی مہم کے دوران ایران کے ساتھ جوہری معاہدے میں واپسی کا وعدہ کیا تھا لیکن عملی طور پر ایسا نہ کر سکے۔ ان کی حکومت نے بھی بین الاقوامی اداروں کے خلاف سخت رویہ اختیار کیا اور کئی وعدے پورے نہیں کیے۔ گذشتہ دو سالوں کے دوران جوبائیڈن انتظامیہ نے بین الاقوامی اداروں کی بدترین تحقیر کی۔ حقیقت میں امریکہ دنیا کی سب سے بڑی باغی ریاست ہے۔ عالمی برادری پر اس کی مادی برتری نے اس کو بے لگام کردیا ہے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے امریکہ بالخصوص ٹرمپ پر عدم اطمینان کی وجہ سے اپنے حالیہ بیانات میں اس بات پر تاکید کی ہے کہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات نہ تو ہوشیاری ہیں؛ نہ ہی آبرومندانہ اور معقول ہیں۔ امریکہ کے ساتھ مذاکرات سے ایران کے مسائل کبھی حل نہیں ہوں گے۔ یہ موقف یورپی اور عرب ممالک کا بھی ہے کیونکہ امریکہ کے اتحادی عرب ممالک نے دیکھا کہ امریکہ فلسطین کے بارے میں اپنے وعدوں سے مکر گیا ہے اور صہیونی حکومت کی زبان استعمال کرنا شروع کیا ہے۔ امریکہ نے اپنے اتحادی ممالک کے ساتھ بھی یہی رویہ اختیار کررکھا ہے۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *