مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، حماس اور صہیونی حکومت کے درمیان غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ صدر ٹرمپ اور نتن یاہو کے غیر ذمہ دارانہ بیانات کے باعث خطرے میں پڑگیا تھا۔ صیہونی حکومت کی رکاوٹوں کی وجہ سے جنگ بندی کا معاہدہ تقریباً منسوخ ہونے کے قریب تھا لیکن ثالثوں کی کوششوں نے فریقین کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کی امیدیں دوبارہ زندہ کر دی ہیں۔
اس حوالے سے حماس کے ترجمان حازم قاسم نے کہا کہ ہم معاہدے کو کسی تبدیلی کے بغیر نافذ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس سلسلے میں کسی قسم کا دباؤ قبول نہیں کیا جائے گا اور ہم کسی بھی قسم کی تبدیلی کی اجازت نہیں دیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم جنگ بندی کے معاہدے اور اس کے تمام مراحل کو طے شدہ وقت کے مطابق نافذ کرنے کے پابند ہیں۔ غاصب صہیونی حکومت ہمیشہ کی طرح تاخیر کی پالیسی پر عمل پیرا ہے لیکن ہم نے انہیں اس بات پر مجبور کر دیا ہے کہ وہ ان شرائط پر عمل کرے جو ان سے معاہدے میں درج کی گئی ہیں۔
قاسم نے وضاحت کی کہ قطر اور مصر امریکی حکومت سے رابطے میں ہیں تاکہ انسانی حقوق کے پروٹوکول پر عمل درآمد کرایا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے مطالبات واضح ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ قابض صہیونی حکومت معاہدے پر مکمل عملدرآمد کرے۔ اس سلسلے میں ہمیں نئی ضمانتیں دی گئی ہیں۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ
“قیدیوں کی منتقلی کا عمل منظم، شفاف اور مہذب طریقے سے مکمل کیا گیا ہے، جو فلسطینی ثقافت اور ہماری مذہبی تعلیمات کی عکاسی کرتا ہے۔ صیہونی قیدیوں کے ایک نئے گروپ کی منتقلی بھی مناسب طریقے سے کی جائے گی اور اسے براہ راست نشر کیا جائے گا۔”
دوسری جانب، حماس کے ایک سینئر رہنما کا کہنا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کے حوالے سے مذاکرات آئندہ ہفتے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہوں گے۔