![](https://urduleaks.com/wp-content/uploads/2025/02/WhatsApp-Image-2025-02-13-at-3.59.36-PM-780x470.jpeg)
افسوس کہ آج وقف ترمیمی بل راجیہ سبھا میں بھی پیش کردیا گیا۔ جس طرح اس معاملہ میں حکمراں پارٹی، اس کی حلیف جماعتوںاور پارلیمنٹ کی قائم کردہ جے پی سی نے ہندوستانی مسلمانوں کے موقف اورجے پی سی میں موجود حزب مخالف کے ممبران کی آراء کو مسلسل نظر انداز کرکے بالکل غیر جمہوری طریقہ پر اپنی من مانی تجویز پارلیمنٹ میں پیش کی ہے وہ انتہائی قابل مذمت، ہندوستانی مسلمانوں، اقلیتوں اور تمام انصاف پسندوں کے لئے ناقابل قبول ہے اور ہم اسے مسترد کرتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت کے لئے اب بھی موقع ہے کہ وہ اس ترمیمی بل کو جو مکمل طور پر وقف کی املاک کو برباد کرنے والا اور مسلمانوں کو ان کی مساجد، عیدگاہوں، مدارس، درگاہوں اور قبرستانوں کی زمینوں سے محروم کرنے والا ہے، واپس لے کر ایک ذمہ دار اور ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ کے اپنے نعرہ پر عمل کرے۔
ملک کے طول وعرض میں موجود مسلمانوں کے تمام مسالک، دینی و ملی جماعتوں، اہم دینی مدارس اور علما و دانشوروں نے جے پی سی سے مل کر اور تقریبا 5 کروڑ مسلمانوں نے ای میل کے ذریعہ بل کی مخالفت میں پرزور طور پر مدلل انداز میں اپنی رائے دی تھی۔ ظاہر ہے اس طرح کے امور و مسائل میں متعلقہ گروہوں( stakeholders) کی آراء کی ہی خصوصی اہمیت ہوتی ہے اور یہی جمہوری تقاضہ ہے لیکن اس کو بالکل ہی نظر انداز کردیا گیا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلمانوں سے متعلق تمام معاملات میں موجودہ حکومت کا طرز عمل انتہائی جانبدارانہ، متعصبانہ اور مخالفانہ ہے جو نہ صرف غیر ذمہ دارانہ ہے بلکہ دستوری اقدار و تحفظات کے بھی مغائر ہے۔ ہماری حزب مخالف کی تمام سیاسی پارٹیوں اور بی جے پی کی حلیف جماعتوں سے اپیل ہے کہ وہ اس بل کو کسی بھی صورت میں پارلیمنٹ سے منظور نہ ہونے دیں۔ اسی طرح ہم ملک کی سول سوسائٹی اور تمام انصاف پسند، جمہوریت نواز ، دستوری، مذہبی و تہذیبی آزادی اور تنوع پر یقین رکھنے والے شہریوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس ظالمانہ و جابرانہ بل کو ہرگز بھی منظور نہ ہونے دیں۔ آج اگر یہ تفریق کرنے والا بل منظور ہوگیا تو آئندہ دوسرے طبقات و گروہوں کی وقف آراضی، عبادت گاہیں اور خیراتی ادارے بھی اس ظالمانہ طرز عمل کی زد میں آنے سے بچ نہیں سکیں گے۔
ہم یہ واضح کردینا چاہتے ہیں کہ اگر یہ بل پارلیمنٹ سے منظور کرلیا گیا تو ہمارے لئے ہرگز بھی قابل قبول نہیں ہوگا۔ ہم ملک کے تمام انصاف پسند اور محب وطن شہریوں، مذہبی طبقات اور گروہوں کو ساتھ لے کر اس کے خلاف پر امن طریقے پر تمام قانونی و جمہوری راستوں کو اختیار کرتے ہوئے اس وقت تک تحریک چلائیں گے جب تک کہ یہ ظالمانہ قانون واپس نہیں لے لیا جاتا۔
حکمراں جماعت کا ایک اور ظالمانہ اقدام اتراکھنڈ حکومت کی طرف سے اتراکھنڈ میں یونیفارم سول کوڈ کا نفاذ ہے۔ اسی کی نقالی میں اب حکومت گجرات نے بھی ایک کمیٹی قائم کرکے اپنی ریاست میں بھی یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ کا عندیہ دیا ہے۔ اولاً ہم یہ واضح کردینا چاہتے ہیں کہ ملک کی کسی بھی ریاست کو اپنے طور پر یو سی سی کے نفاذ کا اختیار نہیں ہے ۔ ملک کے دستور نے دفعہ 44 میں یہ اختیار مرکزی حکومت کو دیا ہے اور وہ بھی اختیاری ہے اور تمام طبقات اور مذہبی اکائیوں کی مرضی کے تحت ہے۔ ہم اتراکھنڈ حکومت کی طرف سے نافذ اس غلط، غیر ضروری اور مذہبی تعصبات پر مبنی، مسلم مخالف اور مغرب کی نقالی پر مبنی نام نہاد یو سی سی قانون کو قانونی طور پر عدالت میں چلینج کرنے کے ساتھ ساتھ تمام مذہبی گروہوں کو ساتھ لے کر اس کے خلاف تحریک چلائیں گے۔ ہم مسلمانان اتراکھنڈ سے امید کرتے ہیں کہ وہ ہر حال میں صرف اور صرف قانون شریعت پر ہی عمل کریں گے اور صبر و استقامت کے ساتھ اپنے دین پر قائم رہیں گے-
پریس کانفرنس کو خطاب کرنے والےحضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ؛ حضرت مولانا سید ارشد مدنی نائب صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ؛ حضرت مولانا عبیداللہ خان اعظمی نائب صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ؛ حضرت مولانا محمد علی محسن تقوی صاحب نائب صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ؛ حضرت مولانا محمد فضل الرحیم مجددی جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ؛ جناب ملک معتصم خان نائب امیر جماعت اسلامی ہند شامل ہیں