فلسطین برائے فروخت نہیں

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: نومنتخب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے آتے ہی اپنے بیانات سے پوری دنیا میں ایک وبال کھڑا کر دیا ہے۔ ایک طرف وہ اپنی پڑوسی ریاستوں کو دھمکا رہے ہیں تو دوسری طرف مغربی ایشیائی ممالک کو بھی غیر مستحکم کرنے کے لئے ایسے ایسے بیانات داغ رہے ہیں، جو کسی بھی طرح عاقلانہ تصور نہیں کئے جا سکتے ہیں۔ امریکی صدر کے غزہ سے متعلق بیان کہ جس میں وہ غزہ کے عوام کو اردن اور مصر کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں اور یہاں پر بڑی بڑی عمارتوں کی تعمیر کے لئے اربوں ڈالر کا کاروبار کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ حالانکہ غزہ پر امریکی و صیہونی تسلط کا خواب کوئی نیا نہیں ہے۔ گذشتہ دو دہائیوں سے آنے والے امریکی صدور نے لبنان و غزہ پر جنگ مسلط کروائی، تاکہ غزہ کو خالی کریں۔

غزہ کو خالی کرنے اور اس پر اپنا مکمل تسلط قائم کرنے کی امریکی و اسرائیلی کوشش پندرہ ماہ کی خونخوار جنگ کے بعد بھی ناکام ہوچکی ہے۔ غزہ جنگ بندی کا معاہدہ طے پاتے ہی غزہ کے باسی اپنے ٹوٹے ہوئے گھروں اور ملبے کے ڈھیروں پر آکر آباد ہونے لگے ہیں۔ غزہ کے ان باسیوں کا اس طرح کے سخت ترین حالات میں واپس آنا ہی دراصل پوری دنیا کے لئے یہ پیغام ہے کہ غزہ کے لوگ اپنے گھر اور وطن کو نہیں چھوڑیں گے اور اس کے لئے انہوں نے ثابت کر دیا ہے کہ جس قدر قربانی دینا پڑے گی، ہم دیں گے اور یہ قربانی انہوں نے پندرہ ماہ میں غاصب صیہونی حکومت اسرائیل اور امریکی کی جانب سے مسلط کردہ جنگ میں پیش کر دی ہے۔

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ چاہتے ہیں کہ غزہ جنگ بندی کے معاہدے کے بعد جو ذلت اور رسوائی امریکی و صیہونی حکام کو اٹھانا پڑ رہی ہے، اس کی پردہ پوشی کی جائے اور ایک ایسی چال کے ذریعے خود کو دنیا کے سامنے طاقتور بنا کر پیش کیا جائے، تاکہ دنیا میں ختم ہوتا ہوا امریکی بھرم باقی رہ جائے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ مشرق کی دنیا نے بھی اس مرتبہ ٹھان رکھی ہے کہ وہ امریکہ کی بالادستی کے خاتمہ کو یقینی بنا کر دم لیں گے اور طاقت کے مرکز کو مغرب سے نکال کر مشرق لائیں گے۔ غزہ پر قبضہ کا امریکی خواب جیسا کہ کوئی نیا نہیں ہے، اس کے لئے ایک مضبوط دلیل جو پیش کی جاسکتی ہے، وہ یہ ہے کہ آخر امریکی حکومتوں نے ہمیشہ غزہ پر جنگ مسلط کرنے کے لئے غاصب اسرائیل کے لئے اربوں ڈالر کا اسلحہ اور جنگی مدد کیوں فراہم کی۔؟

کیا یہ سب کچھ بغیر کسی منصوبہ کے تھا۔؟ آج بھی امریکی صدر یہ بہانہ بنا رہا ہے کہ غزہ کیونکہ ملبہ کا ڈھیر بن چکا ہے، تاہم امریکی حکومت اس غزہ کے علاقہ کو ایک خوبصورت شہر بنائے گی، لیکن آخر یہ شہر کس کے لئے بنایا جائے گا۔؟ جب غزہ کے لوگوں کو ہی اردن اور مصر سمیت دیگر عرب ممالک میں نکالنے کے اعلانات ہو رہے ہیں تو پھر یہ ساری خوبصورتی اور تعمیراتی سرگرمیاں آخر کس کے لئے ہیں۔؟ لہذا اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکی حکومت کا مقصد غزہ کے لوگوں کو سہولیات فراہم کرنا نہیں ہے، بلکہ صیہونی مفادات کے ساتھ ساتھ غزہ میں موجود وسائل پر امریکی تسلط کو یقینی بنانا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا غزہ کے لوگ آسانی سے غزہ چھوڑ کر چلے جائیں گے۔؟ کیا امریکی تسلط اس قدر آسان ہوگا کہ امریکی حکومت آسانی سے غزہ پر قبضہ کر لے گی۔؟ حالیہ پندرہ ماہ کی جنگ کا مشاہدہ کیا جائے تو دنیا بھر کے سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ کے لئے غزہ پر قبضہ کرنا آسان کام نہیں ہوگا، کیونکہ غزہ ان کے لئے ایک ترنوالہ نہیں ہے۔ دوسری طرف مصر اور اردن نے بھی امریکہ کو انکار میں جواب دیا ہے، جس کے عوض اب امریکی صدر ٹرمپ نے مصر اور اردن کی معاشی مدد بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ دوسری جانب یمن ہے، جس نے مصر اور اردن کو پیشکش کی ہے کہ اگر وہ غزہ کا دفاع کرنے کے لئے غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے خلاف جنگ کا آغاز کریں تو یمن اس لڑائی میں ان کے ساتھ ہوگا۔

کیا واقعی ٹرمپ خطے کو ایک مرتبہ پھر جنگ کے شعلوں میں لپیٹنا چاہتا ہے۔؟ کیا ٹرمپ یہی چاہتا ہے کہ غزہ میں از سر نو جنگ شروع ہو جائے، جس کے لئے حال ہی میں ٹرمپ نے دھمکی بھی دی ہے کہ اگر غاصب اسرائیلی قیدیوں کو رہا نہ کیا گیا تو وہ جنگ بندی کا معاہدہ منسوخ کر دے گا۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا ٹرمپ کے اعلانات عملی جامہ پہنانے کے قابل بھی ہیں یا نہیں۔؟ کیونکہ دنیا میں اب نئے نئے بلاک تشکیل دیئے جا رہے ہیں، جس کے بعد امریکہ کی رہی سہی ساکھ بھی کمزور ہوچکی ہے، جو اب صرف ٹرمپ کے ان اعلانات او بیانات سے واپس آنے والی نہیں ہے۔ بہرحال فلسطین کی جہاں تک بات ہے تو فلسطینیوں کی ایک طویل تاریخ موجود ہے۔ پھر فلسطینی مزاحمت کی ایک تاریخ ہے کہ جو کئی دہائیوں سے فلسطینی عوام کے دفاع کے لئے ایک مضبوط شیلڈ بن چکی ہے۔

فلسطینیوں نے اپنی جدوجہد اور استقامت سے نہ صرف امریکی صدر کو یہ پیغام دیا ہے بلکہ پوری دنیا کو بتا دیا ہے کہ فلسطین برائے فروخت نہیں ہے۔ فلسطین فلسطینیوں کا وطن ہے اور اسرائیل غاصب صیہونیوں کی ایک ناجائز ریاست ہے۔ اب امریکہ اس میدان میں آکر غزہ پر قبضہ کی باتیں کر رہا ہے، جس سے پوری دنیا کے امن کو تشویش لاحق ہوچکی ہے۔ امریکی صدر کے بیانات اس بات کی عکاسی کر رہے ہیں کہ امریکی حکومت دنیا میں امن کی نہیں بلکہ جنگ اور دہشت گردی پھیلانے کا منبع ہے۔

یہاں پر ایک نقطہ جو کہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے، وہ یہ ہے کہ اگر غزہ پر امریکی پلان کامیاب ہو جاتا ہے تو یہ صرف فلسطین کے لئے نہیں بلکہ خطے میں موجود دیگر عرب ریاستوں کے لئے بھی خطرے کا باعث بن جائے گا۔ اگر غزہ نہیں رہا تو پھر کوئی بھی نہین بچے گا۔ ایک کے بعد ایک سب کی باری آئے گی۔ تاہم یہی وقت ہے کہ خطے کی عرب و مسلمان حکومتیں متحد ہو جائیں اور خطے میں موجود اس خطرناک کینسر کو کہ جو پھیلنے کے ساتھ ساتھ دوسرے ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لینا چاہتا ہے، جڑ سے اکھاڑ پھینکے۔

تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم

سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *