مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلے فلسطینیوں کو غزہ کی پٹی سے مستقل طور پر جبری منتقل کرنے کی کوشش کا اعلان کیا تھا، تاہم اب انہوں اس پٹی پر امریکی قبضے کے حوالے سے ایک نئی تجویز پیش کی ہے۔
اس تجویز میں فلسطینیوں کو مصر اور اردن منتقل کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے، جسے اکثر عرب اور فلسطینی رہنماؤں نے مسترد کر دیا ہے اور انسانی حقوق کے حامی بھی اس تجویز کو غزہ کی نسلی تطہیر کی ایک غاصبانہ کوشش سمجھتے ہیں۔
الجزیرہ نے اس منصوبے کے بارے میں کچھ سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کی ہے، جو کہ درج ذیل ہیں:
1- ٹرمپ کے غزہ پر قبضے کے منصوبے کی تفصیلات
ڈونلڈ ٹرمپ نے نیتن یاہو کے ساتھ اپنی مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ امریکہ غزہ کی پٹی کا کنٹرول سنبھالے گا اور وہاں کے تمام ناکارہ بموں سمیت دیگر ہتھیاروں کو جمع کرنے، ملبے کی صفائی، تباہ شدہ عمارتوں کو گرانے اور اس علاقے میں اقتصادی ترقی کے لیے ذمہ دار ہو گا، جس سے بہت سے رہائشیوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں۔!
2- ٹرمپ کے نقطہ نظر سے غزہ کے رہائشیوں کے میزبان
ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ فلسطین کے پڑوسی ممالک سے کہیں گے کہ وہ غزہ سے آنے والے تارکین وطن کو قبول کریں۔ البتہ انہوں نے اس بارے میں کوئی بات نہیں کی کہ آیا فلسطینی ایسے کسی منصوبے کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں یا نہیں۔ 25 جنوری سے ٹرمپ بارہا مصر اور اردن سے ایسا کرنے کو کہہ چکے ہیں لیکن ان ممالک اور دیگر عرب ممالک نے ٹرمپ کی تجویز کو مسترد کر دیا ہے۔
امریکی صدر نے اپنی تقریر میں مزید کہا: ان ممالک کے بجائے ہمیں دوسرے ممالک میں جانا چاہیے جو اس مسئلے کو اہمیت دیتے ہیں۔ بہت سے ممالک ہیں جو ایسا کرنا چاہتے ہیں اور بالآخر غزہ کے 18 لاکھ باشندوں کے لیے مختلف علاقے تیار کئے جائیں گے، تاہم امیر پڑوسی ممالک کو اس کے اخراجات برداشت کرنے چاہئیں۔!
3- کیا ٹرمپ اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے فوجی آپریشن کریں گے؟
اس سوال کے جواب میں کہ کیا اس منصوبے کی بنیاد پر امریکہ اپنے فوجی دستے غزہ بھیجے گا، ٹرمپ نے کہا: ہم جو بھی ضروری ہو گا کریں گے۔ اگر فوجی موجودگی ضروری ہے تو ہم اس کی موجودگی کو قبول کر لیں گے اور اس خطے کو اپنے کنٹرول میں لے لیں گے اور ہم اسے ترقی دیں گے اور اس میں ہزاروں لاکھوں نوکریاں پیدا کریں گے اور ہم کچھ ایسا کریں گے جس پر پورا مشرق وسطیٰ فخر کرے گا!
4- کیا ٹرمپ دو ریاستی حل کی حمایت کرتے ہیں؟
پچھلی کئی دہائیوں کے دوران، امریکہ نے اسرائیل اور فلسطین کے بارے میں دو ریاستی حل کی حمایت کی ہے، جو مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کے محدود حصوں میں فلسطینی ریاست کے قیام کا باعث بن سکتا ہے۔ لیکن جب ڈونلڈ ٹرمپ سے اس منصوبے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے اس سوال کا کوئی واضح جواب نہیں دیا اور مزید کہا: اس کا مطلب دو حکومتیں یا ایک حکومت یا کوئی دوسری حکومت نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم لوگوں کو جینے کا موقع دینا چاہتے ہیں، کیونکہ غزہ اب اس کے باشندوں کے لیے جہنم بن چکا ہے۔
5- ٹرمپ کے منصوبے کے مطابق غزہ کے مکین کون ہوں گے؟
اس سوال کے جواب میں ٹرمپ نے کہا: میرے خیال میں دنیا کی قومیں اس خطے میں رہیں گی، جی ہاں، دنیا کی اقوام!
انہوں نے تفصیلات کا ذکر کیے بغیر کہا کہ فلسطینی؛ فلسطینی بھی وہاں رہ سکتے ہیں۔ بہت سے لوگ وہاں رہیں گے۔
فلسطینی مزاحمتی گروہوں اور صیہونی حکومت کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کے پہلے مرحلے کا آغقز 19 جنوری کو ہوا، جس کی بنیاد پر حماس اور اسرائیل کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے چار ادوار پر عمل درآمد کیا گیا ہے۔
موجودہ معاہدے کے مطابق دوسرے مرحلے کے حوالے سے بالواسطہ مذاکرات معاہدے پر عمل درآمد کے 16ویں دن شروع ہونے تھے اور مذاکرات پہلے مرحلے کے پانچویں ہفتے کے اختتام سے قبل مکمل کر لیے جائیں گے۔ تاہم دوسرے مرحلے کے مذاکرات ابھی شروع نہیں ہوئے۔