جدید دنیا کے  ممتاز اور نامور  مسلمان مصلحین

از۔۔ ڈاکٹر محمد اقتدار حسین فاروقی

 جدید دنیا کا آغاز عام طور پر  پندرہویں  صدی  عیسوی کے  اواخر میں ہی سمجھا جاتا ہے ۔جب  یورپ  اپنے تاریک دور سے باہر آچکا تھا۔جہالت اور عبرت انگیز رسوم سے چھٹکارا پا لیا تھا۔ سائنسی  اور فکری  تحریک نے جنم  لے لیا  تھا۔اور یہ دراصل اسلامی  تہذیب کی نقل تھی۔عربی  میں لکھی  گئی سائنسی اور طبی  تصنیفات کے تراجم کئے  گئے۔  گوٹن برگ کی  پرنٹنگ مشین ایجاد ہوئی۔جس  نے علم اور خواندگی کی اشاعت میں بڑی مدد  کی۔یہی تھا  یورپ کا  نشاۃ ثانیہ۔اور بدقسمتی سے  اسی دور سے  شروع ہوا  اسلامی معاشرہ کا زوال۔

 جدید دنیا  کے آ غاز کو  ۱۹ویں صدی کا  دور  بھی  کہا جا سکتاہے جب  مغرب نے  ایک جوش  وجنوں سےسائنسی  و صنعتی  انقلاب کو جنم دیا۔ یہ صنعتی انقلاب دراصل اقتصادی، تکنیکی، اور سماجی تبدیلی کا ایک انقلابی دور تھا  جس نے مغرب کو  شاندار علمی  دولت  سے ہمکنار کیا  ۔افسوس ۔مغرب کے اس علمی اور صنعتی انقلاب  سے اسلامی  معاشرہ  نے دوری  اختیارکر لی  اور  یہی دور  آخر کار  مسلم معاشرہ  کے زوال کا سبب بنا۔ ۔اس طرز عمل نے امت مسلہ کو  سماجی ۔ سیاسی اوارمعاشی  مشکلوں میں گھیر  لیا۔  سماجی جمود اورعلم سے   بیزاری نے اسلامی تہذیب کو نہایت کمزور کر دیا  ۔ دانشوروں  نےاس زوال کے متعدد اسباب بتائیں ہیں۔کچھ اس طرح ہیں:

یورپی طاقتوں کے ذریعے سمندری تجارتی راستوں پر کنٹرول۔اسلامی تجارتی مراکز کمزور۔

“اجتہاد” (آزادانہ استدلال) کے دروازے بند ۔ اور روایتی تشریحات پر سختی سے کاربند ۔

فوج کو جدید بنانے میں ناکامی۔

اسلامی معاشروں اور ترقی پذیر دنیا کے درمیان رابطے کا فقدان۔

فرقہ وارانہ شدت پسندی اور سخت اختلافات۔

سائنسی سرگرمیوں میں کمی، نئی فکر اور خیالات کی مزاحمت، اور صرف ماضی کی کامیابیوں پر انحصار۔

تیل کے وسائل پر حد سے زیادہ انحصار اور معیشت کو طاقت دینے   میں غفلت۔

برطانوی اور فرانسیسی نوآبادیاتی قبضے کے چیلنجز، جو اسلامی دنیا اور ہندوستان  (کثیر مسلم آبادی)کے وسیع علاقوں پر محیط تھے۔

تعلیمی اداروں کے زوال  اور  رٹ  لینے پر زور۔بجائے تنقیدی فکر کو فروغ دینے کے۔

پندرہویں صدی کے آخر میںپرنٹنگ پریس کے استعمال کی شدید مخالفت، سلطان بایزید ثانی نے 1485 میں اسے “حرام” قرار دیا۔ اس کے نتیجے میں جدید علمی مواد اور نئے خیالات کی دستیابی ممکن نہ ہو سکی۔

. اجتہاد  کو  غیر ضروری قرار دیا گیا ۔   

کچھ اسلامی معاشرے پٹرول پر حد سے زیادہ انحصار کرنے لگے اور اقتصادی ترقی کو نظرانداز کر دیا۔    

  بہر حال اسی دور میں کچھ  مصلحین نے اسلامی اقدار پر کاربند رہتے ہوئے جدید چیلنجوں سے ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے  قابل قدر سعی کی۔جدید زمانہ کا مقابلہ کرنے اور مسلم معاشروں کو زوال سے نمٹنے کی کوشش کی۔ اس ضمن میں حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی   ( –1703–1762)  نے تو اٹھارویں صدی ہی میں  پہل کر دی تھی ۔  وہ  برصغیر ہند کے ایک ممتاز اسلامی عالم اورمصلح  تھے۔قرآن اور حدیث کی بنیاد پر اسلامی تعلیمات کی تجدید کی وکالت کی۔قرآن کو فارسی میں ترجمہ کیا تاکہ اسے زیادہ قابل فہم بنایا جا سکے۔مسلمانوں کے اتحاد اور نوآبادیاتی اثرات کی مزاحمت کے لیے سماجی اور سیاسی اصلاحات کا مطالبہ کیا۔ بین ا لمذاہب  تعلقات کو ضروری بتایا۔

 شاہ ولی اللہ دہلوی کے بعد تو 19ویں صدی میں پوری دنیا  میں مسلم اصلاحی تحریکیں  تیزی  سےرونما ہوئیں،۔ان تحریکوں  کے خالقین نےاسلامی تعلیمات کو جدید علم اور سماجی حقائق کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی قابل  قدرکوشش کی۔زیل میں ہم ایسی ہی  انیسویں صدی کی چند عظیم  اور نامور شخصیات کا مختصر تذکرہ پیش کرتے ہیں

جمال الدین افغانی (1839-1897)۔ایک نہایت  نمایاں شخصیت جنہوں نے اسلامی اتحاد اور مغربی سامراجیت کے خلاف مزاحمت کی وکالت کی۔ انہوں نےر تعلیم اور جدید سائنس کی اہمیت پر زور دیا۔انہوں نے نے اسلامی ممالک کو مغربی اقتدار سے آزاد کرانے کی جدوجہد کی۔ انکا  مقصد مسلم ممالک کو ایک خلیفہ کے تحت متحد کرکے ان کا ایک آزاد بلاک بنانا تھا۔جسے پان اسلامزم  بھی کہا جاتا ہے

سید احمد خاں(1817-1898): ایک ممتاز ہندوستانی مصلح، انہوں نے علی گڑھ تحریک کی بنیاد رکھی، جس کا مقصد ہندوستان میں مسلم تعلیم اور معاشرے کو جدید بنانا تھا۔ انہوں نے اسلامی اقدار کو برقرار رکھتے ہوئے سائنس اور مغربی علم کی اہمیت پر زور دیا۔ مغربی طرز کی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے قیام کی بنیاد رکھی ۔جو مسلم دنیا کے معروف تعلیمی اداروں میں سے ایک ہےا۔سا ئنس اور سائنسی فکر کےنا قابل فراموش وکیل۔وہ  سمجھتے تھےکہ دنیا  کے   مسلمانوں کو قعر مذلت سے نکالنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ ان کو نئے سائنسی رجحانات سے باخبر کیا جائے اورانگریزی تعلیم کی طرف راغب کیاجائے۔ ہندو مسلم اتحاد بھی انکی زندگی کا اہم مشن تھا۔کہتے تھے کہ ہندو اورمسلمان اس ملک کی دو آنکھیں ہیں۔

مولانا محمد قاسم نانوتوی (1833-1880، ہندوستان)۔ دارالعلوم دیوبند کے بانیان میں سے تھے، جس کا مقصد روایتی دینی تعلیم کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق ہم آہنگ کرنا تھا۔برطانوی سامراج کے خلاف مزاحمت کی علامت بنے۔اسلامی عقائد اور تشخص کو برقرار رکھنے کے لیے اصلاحی اقدامات کیے۔ وہ جلیل القدر محدث  اور جنگ آزادی کے عظیم مجاہد 

رفاعہ الطہطاوی۔ (–1801–1873): ایک مصری عالم اور مصنف، انہوں نے اسلامی روایت کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے مغربی علوم اور زبانوں کی تعلیم کو فروغ دیا۔ – مصرمیں تعلیمی اور ثقافتی اصلاحات کے حامی۔اسلامی اقدار کو برقرار رکھتے ہوئے جدیدیت کو فروغ دیا۔مصر میں حکمرانی اور تعلیم کے مغربی تصورات متعارف کرائے۔

اسماعیل پاشا ( –1830–1895)۔ – مصر کےعالم نیز حکمران تھے، لیکن مصر کی معیشت، فوج، اور تعلیم کو جدید بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔اسلامی شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے یورپی طرز کی جدیدیت پر زور دیا۔

حاجی امداد اللہ مہاجر مکی فاروقی ( 1817۔ 1899)  ہندوستانی عالم ۔رُشد و ہدایت کا سلسلہ شروع کیا۔تفسیر، حدیث اور فقہ کا درس دیتے رہے۔مجاہدآزادی تھے

عبد الرحمن الکواکیبی  ۔(1854-1902):  شامی مصنف اور مفکر، انہوں نے سلطنت عثمانیہ میں سیاسی اور سماجی حالات کی تنقید کی اور جمہوری اصلاحات کی وکالت کی۔ آزادی، سیاسی اصلاحات اورآمریت کے خلاف جدوجہد کے لیے مشہور ہیں

مولانا رشید احمد گنگوہی (1829-1905، ہندوستان)برصغیر میں اسلامی علوم کے فروغ اور اصلاحی تحریکوں کے علمبردار۔تصوف اور شریعت کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی اور دیوبند مکتبہ فکر کے اہم ستون بنے۔،مبلغ،محقق ،مفسر ومحدث،فقیہ ،مصنف  تھے۔ آپ جنگ آزادی کے مجاہد، امداد اللہ مہاجر مکی کے خلیفہ اور دارلعلوم دیوبند کے سرپرست تھے۔

علامہ شیخ محمد عبدُہ   (: 1849۔ 1905ء) مصری مسلم عالم، محقق، فقیہ، مفتی اعظم ، مصلح، مصنف و مؤلف تھے۔ انھیں شیخ جمال الدین افغانی سے تلمذ حاصل تھا۔ انھیں مصر کا تاریخ ساز اور اصلاح کا داعی اور عظیم شخصیت تصور کیا جاتا ہے۔ انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے آغاز میں وہ فکر اِسلامی کے ارتقا میں مصر کے اندر بہترین کردار اداء کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ماہر تعلیم کے طور پر اور مختلف ادیان کے ایک بڑے عالم کے طور پر جانے جاتے تھے۔مسلم مسائل کے لیے اور اتحاد اُمت مسلمہ کے لیے وہ اپنی فکری کوشش کے اعتبار سے امام غزالی کی مطابقت میں تھے۔ اُن کی زندگی کا ایک بڑا حصہ مصر، عثمانی سلطنت کے مقبوضات (بالخصوص لبنان) اور فرانس میں گذرا۔

پرنس ڈیپونےگورو   (–1785–1855) بنیادی طور پر جاوا جنگ (–1825–1830) کے ایک رہنما کے طور پر جانے جاتے ہیں، وہ ایک مذہبی شخصیت بھی تھے۔ر اسلامی احیاء کے ذریعے Dutch Colonialism  کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتے رہے۔

خیرالدین التونسی  (–1822–1890، تیونس) – ایک ریاستی رہنما اور مصلح جنہوں نے یہ استدلال کیا کہ مسلم معاشروں کے لیے یورپی طاقتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے سیاسی اور انتظامی اصلاحات ضروری تھیں۔

محمد الیگزینڈر بیکر (اواخر 19ویں صدی میں وفات، برطانیہ) – ایک برطانوی شخص جس نے اسلام قبول کیا اور یورپ میں اسلام پرلکچر دئے اور مباحث میں حصہ لیا

محمد السنوسی (–1787–1859، لیبیا) – سنوسیہ تحریک کے بانی، انہوں نے شمالی افریقہ میں اسلامی  اصولوںکی وضاحت کی۔ 

راجہ علی (1–808–1873) –  ملیشیا  ۔۔ عالم اور مورخ جنہوں نے اسلامی فقہ کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا، اور حکومت اور  عوام

 میں عقلی انداز فکر  کو  فروغ دیا۔

احمد پاشا   (–1822–1895) عثمانی  رہنما اور مورخ جنہوں نے قانونی اصلاحات میں اہم کردار ادا کیا، اسلامی قانون کو جدید بنانے میں مدد فراہم کی،  اسلامی اور مغربی قانونی اصولوں کو ملا کر ایک شہری ضابطہ ترتیب دیا ۔

منشی عبداللہ  (–1796–1854) – جدید  ملیشیائی ادب کے بانیکے طور پر جانے جاتے ہیں، انہوں نے تعلیم، حکمرانی اور مذہب پر اپنے تحریروں کے ذریعے معاشرت میں تنقیدی  فکراور اصلاحی خیالات کو متعارف کرایا۔

نامق  کمال   ( –1840–1888) – ایک ممتاز  عالم اور صحافی،۔عثمانی  تحریک کے اہم رہنما تھے، جنہوں نے اسلامی معاشرہ میں آئینی حکمرانی، آزادی اور جدیدیت کی وکالت کی۔



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *