مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی صدر مسعود پزشکیان کے ماسکو دورے کے دوران روسی صدر ولادیمیر پوتن سے ملاقات میں ایران اور روس کے درمیان 20 سالہ اسٹریٹجک تعاون کے معاہدے پر دستخط کیے گئے۔ دونوں ممالک اس معاہدے کو دوطرفہ تعلقات کے فروغ کے لیے انتہائی اہم قرار دے رہے ہیں اور امید کی جارہی ہے کہ اس کے ذریعے اقتصادی، سائنسی، تکنیکی، ثقافتی اور سیاحتی شعبوں میں باہمی تعاون کو مزید وسعت دی جائے گی۔ یہ معاہدہ درحقیقت 2001 میں ماسکو میں طے پانے والے دوطرفہ تعلقات اور باہمی تعاون کے اصولوں پر مبنی سابقہ معاہدے کی جدید شکل ہے جو موجودہ عالمی و علاقائی حالات کے مطابق اپ ڈیٹ کیا گیا ہے۔
تہران اور ماسکو کے درمیان ہونے والے اس معاہدے کے حوالے سے روس میں تعیینات ایرانی سفیر کاظم جلالی نے مہر نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاہدہ ایران اور روس کے تعلقات کے لیے ایک قانونی اور معقول بنیاد فراہم کرتا ہے جو آئندہ کم از کم دو دہائیوں تک دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی سمت معین کرے گا۔
موجودہ دنیا میں بین الاقوامی تعلقات اور اقتصادی تبادلوں میں تیزی آئی ہے اس لئے ان معاہدوں اور روابطہ کے قانونی ڈھانچوں کو مزید جامع اور مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ کوئی ایگزیکٹیو معاہدہ نہیں بلکہ ایک روڈ میپ ہے جو دونوں ممالک کے سیاسی مفادات کو عملی جامہ پہنانے میں مدد دے گا۔ اس معاہدے کی بنیاد پر ایران اور روس کے ماہرین کو چاہیے کہ اقتصادی، تجارتی، توانائی، مالیاتی، بینکاری اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں عملی منصوبے ترتیب دیں۔
ایران اور روس پر عائد بین الاقوامی پابندیوں کی موجودگی میں اس معاہدے کی اہمیت کے بارے میں انہوں نے کہا کہ علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر درپیش چیلنجز کے باوجود ایران اور روس مستقل، مستحکم اور اثر و رسوخ رکھنے والے ممالک کے طور پر اس معاہدے کو عملی طور پر نافذ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس معاہدے کا یوریشین اکنامک یونین، شنگھائی تعاون تنظیم اور برکس جیسے بین الاقوامی تعاون کے پلیٹ فارمز سے الحاق دونوں ممالک کے لیے بے مثال مواقع پیدا کر رہا ہے۔ ہمیں اس فرصت سے استفادہ کرتے ہوئے دونوں ملکوں کے عوام کے فلاح و بہبود کے لئے بھرپور اقدامات کریں۔
صدر ٹرمپ کی پالیسیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایران اور روس کے درمیان معاہدے کی پائیداری کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ دنیا پر حاکم امریکی اور مغربی محوری نظام روبزوال ہے۔ گذشتہ سال کے واقعات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا میں ایک نظام کی جگہ کئی نظام کی سوچ پروان چڑھ رہی ہے۔ غزہ اور لبنان کی جنگ اور دیگر مسائل نے دنیا کو اقتصادی، ماحولیات، توانائی اور دیگر حوالوں سے شدید متاثر کیا ہے اور امریکی خواہش پر چلنے کی سوچ ختم ہورہی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ امریکہ کے مقابلے چین اور روس جیسی عالمی طاقتیں نمودار ہورہی ہیں جس کے اثرات عالمی سطح پر ظاہر ہوں گے گویا مستقبل میں عالمی طاقتوں کے درمیان بڑی رقابت ہوگی۔ امریکہ کے لئے ایک بڑا چیلنج ایران کا روس اور چین سے مزید نزدیک ہونا ہے۔ امریکی دانشوروں کے مطابق تہران، ماسکو اور بیجنگ کا اتحاد امریکی اور مغربی اجارہ داری کے لئے بڑا خطرہ بن سکتا ہے۔
نتیجے کے طور پر تہران اور ماسکو کے تعلقات کا مزید فروغ اور اس کے نتیجے میں نئے علاقائی بلاکوں کا قیام عالمی سطح پر کثیر الجہتی رجحانات کو مستحکم اور مضبوط کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ یہ عمل براہ راست ٹرمپ انتظامیہ کے مفادات اور اہداف کے برخلاف ہے۔
ٹرمپ اور روس کے درمیان تعلقات کی وجہ سے تہران اور ماسکو کے درمیان ہونے والے معاہدے پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں جلالی نے کہا کہ امریکہ اور مغربی دنیا اس حقیقت کا مشاہدہ کررہی ہیں کہ ان کی مرضی اور ارادے کے خلاف عالمی سطح پر کچھ تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔ امریکہ کی خارجہ پالیسی کا ایک بنیادی مقصد یہ ہے کہ وہ ایسی سیاسی، اقتصادی اور سیکیورٹی انتظامات کی تشکیل کو روک سکے، جن میں مغربی دنیا کی مرکزیت نہ ہو یا جو ان کے کنٹرول سے باہر ہوں۔ ایران اور روس اس نئے عالمی نظام کا اہم حصہ ہیں اور دونوں ممالک اس نئے ماحول میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے اپنی مکمل کوششیں کررہے ہیں۔ مختلف ممالک برکس اور شنگھائی تعاون تنظیم میں شامل ہونے کے لیے دلچسپی دکھا رہے ہیں۔ یہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ایران اور روس اس میدان کے اہم کھلاڑی ہیں اور یہ عمل ایک ناقابل واپسی حقیقت بن چکا ہے۔