حیدرآباد: حضرت مولانا حافظ پیر شبیر احمد صاحب صدر جمعۃ علماء تلنگانہ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ عزہ تبوک مدینہ منورہ سے تقریباً (700) کلو میٹر کی مسافت پر دمشق کے راستے میں واقع ہے۔ اس غزوۂ کا نام تبوک اس لئے رکھا گیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چند صحابہ کو ایک چشمے سے پانی حاصل کرتے دیکھا تو فرمایا “تم تبوک پر اْترے ہو۔ میں ا س غزوۂ کا نام تبوک رکھتا ہوں “۔ فتح مکہ کے سات ماہ بعد ماہ رجب 9ہجری میں غزوۂ تبوک پیش آیا تھا۔
سورۂ توبہ کی کچھ آیات غزوۂ تبوک پر روانگی سے قبل کچھ دورانِ سفر اور کچھ مدینہ واپسی کے بعد نازل ہوئیں۔ یہ غزوۂ مومنوں اور منافقوں کے درمیان کسوٹی ثابت ہوا۔ ابو عامر فاسق غزوۂ الاحزاب کے بعد بھاگ کر قیصر روم کے پاس پہنچ گیا اور اْسے مسلمانوں کی کمزوریوں سے فائدہ اْٹھانے کے لئے اْکسا رہا تھا۔ وہ فتح مکہ اور بنی ہوازن کی شکست سے بہت پریشان تھا او ر آدھی دنیا کا حکمران ہونے کا اْسے بہت گھمنڈ تھا۔
اور مسلمانوں کی کمزوریوں سے فائدہ اْٹھانے کے لئے اْکسا رہا تھا۔ وہ فتح اور مسلمانوں سے ٹکر لینے کی تیاریوں کی خبریں مسلسل مدینہ پہنچ رہیں تھیں۔ شام سے آئے ہوئے سوداگروں نے جب قیصر روم کی جنگی تیاریوں کی خبروں کی تصدیق کی تو حضور اقدس ﷺنے ضروری سمجھا کہ نہ تو رومیوں کو پہل کرنے کا موقعہ دیا جائے اور نہ اْن کو عرب کی سرحدوں کے اندر داخل ہونے دیا جائے۔
اس سے پہلے کے غزؤات میں صرف تیاری کا حکمِ نبویﷺ ہوا کرتا تھا اور تفصیل نہیں بتائی جاتی تھی۔ غزوۂ تبوک کے لئے مسلمانوں کو ذہنی طور پر تیار کرنے کے لئے نامساعد حالات اور منزل کی دوری کی پوری تفصیل بتا کر مومنوں کو دور دراز سفر کے لئے مناسب تیاری کا حکم دیا۔
اْس وقت موسم انتہائی گرم اور عین فصل پکنے کے دن تھے۔ ایک طرف آپ مسلمانوں کو گھروں سے نکلنے کے لئے حکم فرما رہے تھے تو دوسری طرف منافقین اْن کو گرمی کی شدت، دشوار گزار اور طویل سفر سے ڈرا کر اْن کو روکنے کی کوشش کر رہے تھے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مہم کی تیاری کے لئے مختلف قبائل سے بھی لشکر جمع کئے۔
مالی حیثیت کو مضبوط کرنے کے لئے صاحب ثروت صحابہ کرام ؓ کو عطیات جمع کرانے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا “دینوی زندگی کا سرمایہ آخرت میں بہت کم ہے “۔ اس موقعہ پر حضرت عمر فاروق ؓنے اپنے تمام گھریلو اثاثے کا آدھا حصہ حضورﷺکے قدموں میں ڈال دیا۔ حضورﷺ نے پوچھا تو عرض کیا:یا رسول اللہ! اتنا ہی حصہ گھر والوں کے لئے چھوڑ آیا ہوں “۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اپنا کل اثاثہ لا کر مسجدِ نبویﷺ میں ڈھیر کر دیا۔
حضورﷺؓنے پوچھا کچھ گھر والوں کے لئے چھوڑا ہے تو عرض کیا:یا رسول اللہ! اللہ اور اْس کے رسولﷺ کا نام چھوڑا ہے۔حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ، حضرت عباسؓ، حضرت طلحہ ؓ، حضرت سعد ابن عبادہؓ، محمد بن سلمہ اور حضرت عاصم بن عدی نے اپنی اپنی حیثیت کے مطابق اپنا اپنا حصہ پیش کیا۔ سب سے بڑا عطیہ حضرت عثمان غنی ؓ نے پیش کیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے مسجدِ نبویﷺ میں مال و زر اور اجناس خوردنی کے ڈھیر لگ گئے۔
خواتین نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اپنے زیورات عطیات کے طور پر پیش کئے۔حضور نے ان عطیات سے مجاہدین کو ضروری جنگی اور دوسرا سامان خریدنے کی تلقین فرمائی۔ اس طویل اور دشوار گزارسفر کے پیشِ نظر لوگوں کو اپنے ساتھ زیادہ سے زیادہ جوتے رکھنے کی نصحیت فرمائی۔
30 ہزار مجاہدین پر مشتمل یہ لشکر جس میں 10 ہزار گھڑ سوار اور 12 ہزار شْتر سوار بھی شامل تھے ایک ایسی حکومت سے ٹکر لینے کے لئے جس کی طاقت کا لوہا آدھی دْنیا مان چکی تھی حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی کمان میں مدینہ منورہ سے روانہ ہوااور تقریباً 15 دن کی مسافت طے کر کے تبوک پہنچا۔20دن وہاں قیام ہوا اور تقریباً 15 دن واپسی پر لگے۔
تبوک پہنچنے کے بعد حضورﷺنے اللہ تعالیٰ کی کچھ حمد و ثنا بیان کر کے یک خطبہ ارشاد فرمایا۔تبوک میں آپﷺ نے تقریباً 20دن دشمن کا انتظار کیا مگر کوئی مقابلے کے لئے نہ آیا۔ دراصل اتنے دشوار گزار راستوں میں 30 ہزار مجاہدین سمیت حضورﷺ کے عرب سرحدوں تک پہنچ جانے سے دشمن اس قدر مرعوب ہو گیا کہ اس طرح کا رْخ کرنے کی ہمت ہی نہ ہو سکی۔ او ر وہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ مسلمانوں کی کمزوریوں کی جو خبریں اْس کو دی گئی تھیں وہ غلط تھیں۔ ایک مخبر کی اطلاع پر وہ نفسیاتی طور پر اس قدر متاثر ہوا کہ مسلمان ہونے کا ارادہ کر لیا۔ اس طرح نفسیاتی فتح سیاسی فتح میں تبدیل ہو گئی۔
آپﷺ نے آس پاس کے حکمرانوں کے پاس اپنے قاصد بھیجے۔ بعض نے نذرانے بھیجے اور بعض نے جزیہ دینا منظور کر لیا۔ اہل ایلہ کو امان نامہ عطا ہوا تھا۔ حضورﷺ نے مختلف معاہدات کے ذریعے اسلامی مملکت کی شمالی سرحدوں کو مضبوط کر لیا۔ رومی اور نصرانی مقابلے کے لئے نہ آئے۔ ہرقل نے حمص سے حرکت نہ کی۔ چنانچہ 20 دن انتظار کرنے کے بعد آپﷺ نے مہاجرین اور انصار سے مشورہ کیا کہ آگے بڑھنا چاہئیے یا واپس مدینہ جانا چاہئیے۔
صحابہ کرامؓ نے عرض کیا جیسے آپ حکم کریں ہم حاضر ہیں۔حضورﷺ نے فرمایا “اگر ایسا ہوتا تو آپ سے کیوں پوچھتا”۔صحابہ کرامؓ نے عرض کیا کہ قیصر مسلمانوں کا مرعوب ہو چکا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ مقابلے کے لئے نہیں آیا۔ اس لئے آگے بڑھنے کی بجائے واپسی زیادہ بہتر ہے۔ چنانچہ آپﷺ نے واپسی کا حکم فرمایا۔ جو منافق اس لشکر میں شامل تھے وہ واپسی سے ناخوش تھے۔
چنانچہ اْن میں سے بارہ منافقوں نے سازش کر کے آپﷺ کو پہاڑی سے گرانے کی سازش کی۔ اللہ نے آپﷺ کو بذریعہ وحی اس سازش کی خبر کر دی۔ شعبان کے آخر یا رمضان کے شروع میں آپﷺ مدینہ منورہ واپس پہنچے۔ سب سے پہلے مسجدِ نبوی تشریف لے گئے۔
دو گانہ نفل ادا کئے اور لوگوں کو شرفِ ملاقات بخشا۔غزوۂ تبوک کے نتائج اور اثرات: (1)اس طویل اور کھٹن سفر پر کامیاب پیش قدمی سے دشمن مرعوب ہو گیا اور بغیر جنگ کے شکست قبول کر لی (2) مسلمانوں کی عسکری برتری کو تمام فریقین نے تسلیم کر لیا (3) آس پاس کی حکومتیں اور عرب قبائل اسلام کی طرف مائل ہوئے (4) بغیر جنگ کے فتح کے تمام فوائد حاصل ہوئے (5) اسلام کی بالا دستی قبول کرتے ہوئے دوردراز علاقوں سے آ کر لوگوں نے اسلام قبول کرنا شروع کر دیا (6) مسلمانوں کا مورال بلند ہو گیا
اور مشکل سے مشکل حالات میں بڑی سے بڑی طاقت سے ٹکر لینے کا حوصلہ پیدا ہو گیا (7) جزیہ کی وصولی شروع ہو گئی (8) اشاعتِ اسلام کا دوردراز علاقوں تک آغاز ہوا(9) منافقین کا پردہ چاک ہو گیا(10) غزوۂ تبوک اہلِ ایمان اور منافقین کے درمیان کسوٹی ثابت ہوا(11) نفسیاتی جنگ کے سیاسی نتائج برآمد ہوئے(12) ایلہ کے عیسائی حکمران یوحنا نے خود حاضر ہو کر جزیہ دینا منظور کر لیا۔اس کے علاوہ جربا اور اذرخ کے عیسائیوں نے صلح کر کے جزیہ دینا منظور کر لیا(13) آئندہ کے لئے اسلام کی ترقی کی راہیں کھل گئیں جن سے اسلامی پرچم دور دراز علاقوں قیصر و کسریٰ کے علاقوں پر بھی لہرایا۔