صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے پیر کے روز ایک ایگزیکٹیو آرڈر پر دستخط کیا جس میں 51 سابق خفیہ افسران کی سیکورٹی سے متعلق منظوری کو رد کر دیا گیا، یہ افسران ہنٹر بائڈن کیس سے جڑے بتائے جا رہے ہیں۔
امریکہ کے 47ویں صدر کی شکل میں حلف لینے کے بعد ڈونالڈ ٹرمپ ’ایکشن موڈ‘ میں دکھائی دے رہے ہیں۔ انھوں نے 20 جنوری کو حلف برداری کے فوراً بعد ہی کئی بڑے فیصلے لیے اور کچھ اہم کاغذات پر دستخط بھی کیے۔ اس درمیان انھوں نے اپنے ’پرانے دشمنوں‘ سے بدلہ لینا بھی شروع کر دیا ہے۔
موصولہ اطلاع کے مطابق 51 امریکی افسران کے خلاف کارروائی ہوئی ہے اور ان سبھی کا تعلق ایک خاص کیس سے رہا ہے۔ دراصل سابق صدر جو بائڈن کے بیٹے ہنٹر بائڈن کے کیس میں مدد کرنے والے افسران کے خلاف کارروائی ہوئی ہے۔ اس کارروائی کے بعد کہا جانے لگا ہے کہ ٹرمپ کسی بھی طرح سے اپنے دشمنوں کو معاف کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے ہیں۔
بہرحال، ڈونالڈ ٹرمپ نے پیر کے روز ایک ایگزیکٹیو آرڈر پر دستخط کیا جس میں 51 سابق انٹلیجنس افسران کی سیکورٹی منظوری کو رد کر دیا گیا۔ ان افسران نے دعویٰ کیا تھا کہ ہنٹر بائڈن کے لیپ ٹاپ سے متعلق رپورٹنگ میں 2020 کے انتخاب سے پہلے روسی منفی تشہیر کے ’کلاسک امبارک‘ تھے۔ کئی سابق افسران بہت پہلے ہی سبکدوش ہو چکے ہیں اور اب ان کے پاس کوئی ایکٹیو کلیئرنس نہیں ہے، جس کا مطلب ہے کہ اس قدم کا ان کے کیریئر پر محدود اثر ہو سکتا ہے۔ پھر بھی اس حکم سے پتہ چلتا ہے کہ ٹرمپ قومی سیکورٹی اور انٹلیجنس پیشہ وروں کو سزا دینے کے اپنے دعووں پر کارروائی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ گزشتہ سال جون میں ایک انتخابی ریلی کے دوران ٹرمپ نے خط پر دستخط کرنے والے 51 سابق افسران کے بارے میں کہا تھا کہ ’’ان کے عمل کے لیے ان پر مقدمہ چلانا جانا چاہیے۔‘‘ اب ایگزیکٹیو آرڈر میں قومی انٹلیجنس ڈائریکٹر کو وہائٹ ہاؤس کو ایک رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت بھی دی گئی ہے جسے 90 دنوں میں پیش کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔
غور کرنے والی بات یہ ہے کہ خط پر اوباما اور بش دونوں انتظامیہ کے کئی سرکردہ سابق افسران نے دستخط کیے تھے، جن میں قومی انٹلیجنس کے سابق ڈائریکٹر جم کلیپر، سابق سی آئی اے ڈائریکٹر جان برینن اور سابق کارگزار سی آئی اے ڈائریکٹر جان میکلاگھلن اور مائیکل موریل شامل تھے۔ خط لکھے جانے کے 4 سال بعد اس کو لکھنے والے ریپبلکن اراکین پارلیمنٹ اور ٹرمپ کے ساتھیوں کے لیے ایک اہم ہدف بن گئے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔