خدمت خلق سے خالق کے گھر تک

ڈاکٹر مفتی تنظیم عالم قاسمی چشتی صابری
خادم تدریس دارالعلوم سبیل السلام حیدرآباد
(۱)
سفر عمرہ اور عشق رسول ؐ:

دنیا میں شاید کوئی ایسا مسلمان نہیں ہے جس کو بیت اللہ اور روضۂ رسول ؐ کی زیارت اور وہاں کے مقامات مقدسہ دیکھنے کی تڑپ نہ ہو، ہوش سنبھالنے کے بعد زندگی بھر جس خانۂ کعبہ کی طرف رخ کرکے ایک شخص نماز پڑھتا ہے اور جس کی تعمیر و تزئین کے واقعات سنتا رہتا ہے، جس حرم شریف کی حفاظت کے لئے دعائیں کرتا ہے، مدینہ منورہ جس کی مٹی اور ذرہ ذرہ سے بھی بے پناہ محبت اور عشق ہوتا ہے، جن مقامات کے تذکروں سے بھی دل مچل جاتا ہے ان کی زیارت اور دیدار کے شوق سے کس مسلمان کا دل خالی ہو سکتا ہے؟ ہر مسلمان آرزو کرتا ہے اے کاش! میرے جسم میں پرندوں کی طرح دوپر لگا دیئے جاتے تو میں بھی اڑ کر جاتا اور اس طویل سفر کو شوق میں گذار کر جب بیت اللہ حاضر ہوتا تو اپنے رب کے حضور عرض کرتا :

مجھے اپنے گھر بلایا یہ کرم نہیں تو کیا ہے
مجھے اپنا در دکھایا یہ کرم نہیں تو کیا ہے
جو حرم کے قافلے کا بنا ایک فرد میں بھی
مجھے مہماں بنایا یہ کرم نہیں تو کیا ہے
میں حرم کے زائروں میں ایک اجنبی سا چہرہ
اسے پیار سے نوازا یہ کرم نہیں تو کیا ہے

اور جب رسول اللہ ؐ کی بارگاہ میں حاضری ہوتی تو اس طرح سلام عرض کرتا جیسے کسی عظیم بادشاہ کی خدمت میں کوئی ادنیٰ غلام لرزتے کانپتے دبے لفظوں میں اپنا سلام پیش کرتا ہے۔ اپنی زندگی کا آپؐ کو دکھ سناتا اور درد کی دوا اور زخموں کا مرہم لے کر واپس آتا ہے جس طرح صحابۂ کرام ؓ بارگاہ نبوت میں پہنچ کر اپنے مسائل حل کیا کرتے تھے، وہاں سے کوئی شخص محروم واپس نہ ہوتاتھا۔

سفر حرمین توفیق الٰہی سے ہی ممکن :

حرمین شریفین کی زیارت کے پاکیزہ خیالات کسے نہیں آتے لیکن یہ بھی طے شدہ حقیقت ہے کہ سفر حج اور عمرہ کا تعلق صرف اور صرف توفیق الہٰی ہی سے ہے، جس کو اللہ تعالیٰ قبول کرتا ہے اور اپنے در پر بلاتا ہے وہی وہاں پہنچتا ہے۔ اسی لئے زائرین حرم کو احادیث مبارکہ میں اللہ کا مہمان کہا گیا ہے۔بہت سے لوگ کروڑوں کے مالک ہوتے ہیں مگر انہیں ایک بار بھی حج کی توفیق ہوئی ہے اور نہ عمرہ کی، زندگی بھر مقامات مقدسہ کا ذکر سنتے رہے مگر ان کے دل میں شوق کبھی پیدا نہیں ہوا اور اگر کبھی شوق جاگا بھی تو کوئی نہ کوئی رکاوٹ پیدا ہو گئی اور حرمین شریفین کے سفر کا خواب شرمندہ ٔ تعبیر نہ ہو سکا یہاں تک کہ موت کا وقت آگیا اور حسرت لئے دنیا سے چل بسے۔ بڑے بڑے بادشاہ اور حکمرانوں کا بھی یہی حال ہے جن کے لئے وہاں جانا اور آنا معمولی بات تھی مگر نہ جا سکے اور بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں کہ ظاہری اسباب و وسائل ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے، امید نہیں تھی کہ وہ وہاں تک جا سکیں گے لیکن سچا عشق ان کے پاس تھا،اللہ اور اس کے رسول ؐکی محبت کا سرمایہ ان کے پاس تھا، اللہ تعالی نے ان کے لئے اسباب پیدا کردیا اور وہ قافلۂ زائرین حرم میں شامل ہو گئے، کبھی ایسا بھی دیکھا گیا کہ اسباب کے فقدان کے باوجود کئی کئی مرتبہ حج اور عمرہ نصیب ہوگیا، یہ انتخاب خداوندی کی بات ہے وہ جس کو اور جب چاہتا ہے اپنے در پر بلا لیتا ہے اور جب چاہتا ہے ساری دولت کے باوجود محروم کر دیتا ہے، اسی لئے بس اسی سے تڑپ کر مانگنے کی ضرورت ہے، آپ اپنی حیثیت پر نظر رکھنے کے بجائے مالک حقیقی سے سچا تعلق پیدا کیجئے، ایک دن ضرور زیارت نصیب ہوگی۔

میری تمنا جب پوری ہوئی :

عام مسلمانوں کی طرح مجھے بھی حرمین شریفین کی زیارت کا بے انتہا شوق تھا، جب کسی کو حج یا عمرہ کے لئے جاتے دیکھتا تو دل مچل کر رہ جاتا اور احرام کی حالت میں جب کسی پر نظر پڑتی تو دل ہی دل میں کہتا :

کعبہ سنتے ہیں کہ گھر ہے بڑے داتا کا ریاض
زندگی ہے تو ہم فقیروں کا بھی پھیرا ہوگا

حرم شریف جاتے یا آتے کسی قافلہ سے ملاقات کے وقت جو کیفیت ہوتی، اس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا، ظاہری اسباب ووسائل کی کمی کے سبب زائرین کے قافلہ کا حصہ بننا میرے لئے مشکل تھا لیکن کسی حاجی کے ہاتھ سے آب زمزم اور کھجور کا تحفہ لیتے وقت تڑپ کر دل سے دعا کرتا کہ اے میرے پروردگار ! وسائل کے آپ محتاج نہیںہیں، آپ جہاں اور جب چاہتے ہیں اسباب پیدا کر لیتے ہیں مجھے بھی حرمین شریفین کی زیارت کے لئے قبول فرما، وہ دن دکھا دے جب میں اپنی ان گنہگار آنکھوں سے بیت اللہ شریف اور روضۂ اطہر کی زیارت کروں اور میرے بے چین دل کو قرار آئے۔ حجاج کرام اور زائرین حرم کے بارے میں بارہا دل میں خیال پیدا ہوتا کہ کتنے خوش نصیب ہیں یہ لوگ جن کو قدرت نے زیارت حرمین کے لئے قبول فرمایا اور ان کو اپنے گھر تک بلایا … بزرگوں کا تجربہ ہے کہ جب کوئی شخص صدق دل سے مکۃ المکرمۃ اور مدینہ منورہ کی تمنا کرتا ہے اور وہاں آنے جانے والوں کو محبت کی نظر سے دیکھتا ہے تو بہت جلد قدرت کی جانب سے اس کی تمنا پوری کردی جاتی ہے۔ مجھے اللہ کی ذات سے یقین تھا کہ ضرور ایک نہ ایک دن میری تڑپ دربار الٰہی میں قبولیت کا شرف حاصل کرے گی، اس دن اور تاریخ کا شدت سے انتظار تھا۔

میری خوش نصیبی کہ ایک دن صبح کے وقت اچانک میرے شیخ و مرشد طبیب روحانی وجسمانی خادم قوم و ملت حضرت حافظ و قاری شاہ محمد عبدالمقتدر قریشی چشتی صابری صاحب دامت برکاتہم کا فون آیا جس میںحضرت حافظ صاحب نے اپنے ساتھ سفر عمرہ پر چلنے کی خوشخبری سنائی جسے سن کر خوشی سے میری آنکھوں سے آنسو نکل آئے اور بے قابو ہو کر عرض کیا کہ حضرت میرا پاسپورٹ تیار ہے اور یقین جانئے کہ میں نے اسی دن کے انتظار میں اپنا پاسپورٹ بنواکر رکھا ہے، میرے لئے بڑی سعادت کی بات ہوگی کہ میں اپنے پیر ومرشد کے ساتھ اس روحانی سفر کا حصہ بنوں، بلاشبہ میرے لئے تو دوہری سعادت کی بات ہوگی ایک تو عمرہ کا مقدس سفر اور دوسرے آپ کی معیت کا شرف، میرے الفاظ سن کر آپ نے خوشی کا اظہار فرمایا اور دعاؤں سے نوازا،پھرکیا تھا شوق وارفتگی میں دل بے چین ہو گیااور متعین تاریخ کے لئے میں ایک ایک پل گننے لگا۔

مرکز خدمت خلق کا اجلاس عام :

پچھلے پچیس سال سے مرکز خدمت خلق کے تحت حضرت حافظ صاحب دامت برکاتہم کی خدمت جاری ہے۔ اس عرصہ میں کم و بیش ستر لاکھ لوگوں نے آپ سے استفادہ کیا ہے،کیا مرد اور کیا عورت، مسلم اور غیر مسلم، مال دار اور غریب، مالک اور مزدور ہر طبقہ کے لوگ یہاں آتے ہیں، کسی کی جیب پر یہاں نظر نہیں ڈالی جاتی اور نہ کسی سے کوئی فیس لی جاتی ہے۔ تلنگانہ، مہاراشٹرا، کرناٹک، آندھرا پردیش اور ملک کی دیگر ریاستوں سے مصیبت زدہ افراد یہاں آکر عافیت اور سکون پاتے ہیں، روزانہ مریضوں کا ایک تانتا بندھا ہوا ہوتا ہے، یہ لوگ بڑی عقیدت لے کر یہاں حاضر ہوتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ یہاں اللہ کی رحمت سایہ فگن ہے، جو آتا ہے محروم واپس نہیں جاتا، یہاں آنے والے آنکھوں میں آنسو لے کر آتے ہیں مگر واپسی میں چہرے پر مسکراہٹ اور دل میں اطمینان کی کیفیت ہوتی ہے۔ ہفتہ میں ایک دن صرف جمعہ کے روز مرکز بند رہتا ہے مگر یہ بھی مریضوں کے لئے بڑا دشوار گذرتا ہے۔ بعض لوگوں کے مرض کی شدت ایسی ہوتی ہے کہ روزانہ ان کے علاج اور حضرت حافظ صاحب کی نظر کی ضرورت ہوتی ہے۔ دور دراز سے بے چین اور پریشان حال لوگ بڑی امیدوں کے ساتھ یہاں پہنچتے ہیں اور اپنا علاج کراتے ہیں،ظاہر ہے کہ عمرہ کے لئے پندرہ دن کا سفر عوام کے لئے بڑا صبر آزما ہے، اس لئے حضرت حافظ صاحب کا معمول ہے کہ جانے سے پہلے ہی اپنے سفر سے مطلع فرمادیتے ہیں تاکہ ضرورت مند افراد اسی اعتبار سے اپنے علاج کا بندوبست کرلیں۔ اس مرتبہ بھی پہلے سے اعلان کردیا گیا تھا اور لوگوں کی آسانی کے لئے مرکز خدمت خلق کے سالانہ جلسہ کے عنوان سے ملاقات اور نصیحت کا دن رکھا گیا تھا جس میں ہزاروں مسلم اور غیر مسلم افراد نے شرکت کی۔ علماء کرام، دانشوران ملت،وکلاء اورسیاسی قائدین بھی کثیر تعداد میں موجود تھے۔

توصیفی کلمات:

حضرت حافظ صاحب دامت برکاتہم کے خطاب سے قبل دیگر علماء و سیاسی قائدین نے مرکز خدمت خلق سے متعلق اپنے تأثرات کا اظہار کیا۔مہاراشٹرا سے آئے ہوے ایم ایل اے بابا صاحب پاٹل اور دیگر غیر مسلم قائدین کا احساس تھا کہ اسلامی تعلیمات کے بارے میں ہم جو بچپن سے سنتے رہتے ہیں ان کا نمونہ عملی طور پر کہیںنظر نہیں آتا جس کو دیکھ کر یہ کہہ سکیں کہ یہ اسلام ہے، مسلمانوں کی زندگی اسلام کے بالکل برعکس ہے مگر حضرت حافظ صاحب کو دیکھتے ہیں تو یہاں آپ کی زندگی میں اسلام کا مکمل عکس نظر آتا ہے، آپ کو دیکھ کر صحیح اسلام کو ہم سمجھ سکتے ہیں۔ بہت سے لوگوں نے آپ کی بے لوث خدمت خلق کو خراج تحسین پیش کیا اور ہندو مسلم اتحاد، انسانیت کے فروغ اور محبت و بھائی چارگی کے لئے آپ کی کوششوں پر توصیفی کلمات کہے بالخصوص تلنگانہ کے سابق وزیر داخلہ جناب محمد محمود علی صاحب جو آپ سے انتہائی متأثر اور آپ کے عقیدت مند بھی ہیں،انہوں نے کہا کہ آج کی خود غرض دنیا میں اس طرح کی کوششیں چہار جانب سے سراہے جانے کی قابل ہیں، آپ کی خدمت خلق دوسروں کے لئے بہترین نمونہ ہے، اس طرح اخلاص کے ساتھ اگر کام کیا جائے تو دین و ایمان اور عزت و آبرو کے لٹیروں سے معاشرہ پاک اور صاف ہو سکتا ہے۔

عقیدت مندوں کی طرف سے گلپوشی:

اخیر میں حضرت حافظ صاحب نے فکر انگیز اور انتہائی جامع اور مؤثر خطاب کیا۔آپ نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور کہا کہ یہ سب میرے رب کا فضل ہے کہ اس نے کروڑوں انسانوں میں سے منتخب کرکے مجھے اس کام کے لئے بٹھایا اور وہ مجھ حقیر سے یہ خدمت لے رہا ہے۔ آپ کے خطاب کے بعد دعاء سے قبل عمرہ میں جانے کی مناسبت سے عقیدت مندوں، محبین و متوسلین کی جانب سے گلپوشی کا سلسلہ شروع کیا گیا۔تقریباً ایک گھنٹہ تک گلہائے عقیدت اور شال پوشی کے ذریعے مریدین اور معتقدین نے اپنی بے پناہ محبت کا اظہار کیا، پندرہ دن کی عارضی جدائیگی پر بھی وہ اپنی آنکھوں سے آنسو بہا رہے تھے،اختتام پر حافظ صاحب نے انہیں تسلی دیتے ہوے رقت انگیز دعاء کی۔

مرکزخدمت خلق سے قافلہ کی روانگی :

عمرہ میں جانے والے تمام خوش نصیب حضرات کو ہدایت دے دی گئی تھی کہ تمام افراد علی الصباح مرکز خدمت خلق میں حاضر رہیں یہاں احرام باندھنے کے بعد بذریعۂ بس قافلہ ایئر پورٹ کے لئے روانہ ہوگا۔میرے لئے یہ دن زندگی کی سب سے بڑی خوشی کا دن تھا، ہر دن اور ہر تاریخ میرے لئے ایک سال کا عرصہ محسوس ہورہا تھا، متعین تاریخ میں بڑے شوق سے گھر سے مرکز کی طرف روانہ ہوا، جذبات مچل رہے تھے،خوشیوں کا کوئی ٹھکانا نہیں تھا، بدن کا رواں رواں مسرت و شادمانی سے سرشار تھا، مرکز خدمت خلق میں پہنچا تو دیکھا کہ حضرت حافظ صاحب دامت برکاتہم کے مریدین، متوسلین اور معتقدین کا ایک اژدھام ہے۔ تقریباً چالیس وہ خوش نصیب افراد تھے جن کو اس مقدس سفر میں جانا تھا اور وہ ہمارے قافلہ کا حصہ تھے جن کو چھوڑنے کے لئے بھی ان کے متعلقین وہاں آئے ہوے تھے اور بیشتر افراد حضرت حافظ صاحب کی دیدار، ملاقات اور دعاؤں کی درخواست لے کر آئے تھے۔

مرکز میں یہ نظارہ بھی کیا خوب تھا کہ پیر بھائی احرام باندھنے میں ایک دوسرے کی مدد کر رہے تھے،ان کی آنکھیں خوشی سے چمک رہی تھیں،احرام باندھنے سے فارغ ہو کر نم آنکھوں کے ساتھ وہ ایک دوسرے سے بغل گیر ہورہے تھے اور خصوصی دعاؤں کی درخواست کر رہے تھے،احرام کی دورکعت نفل ادا کرنے کے بعد حضرت حافظ صاحب نے انتہائی مؤثر دعاء کی۔ اس میں جانے والوں کے عمرہ کی قبولیت، سفر کی آسانی، تمام مشکلات و مصائب سے حفاظت کے علاوہ ملک و ملت اور سارے مسلمانوں کے لئے دعاء کی گئی،تمام زائرین کی آنکھیں بھیگ چکی تھیں، دیگر لوگ بھی رو رو کر خاص طور پر اپنے شیخ و مرشد کی سلامتی اور عافیت کے لئے دعائیں کررہے تھے۔بہت سارے لوگ حرم شریف میںدعاؤں کی درخواست کی تمنا لے کر آئے تھے، حضرت حافظ صاحب دامت برکاتہم کے حکم پر تمام لوگوں کے نام کے ساتھ میں نے سب کی حاجتیں اپنی خصوصی ڈائری میں درج کر لیں۔ پھر مصافحہ اور معانقہ کا سلسلہ شروع ہوا، آدھے گھنٹے کے بعد زائرین حرم کا یہ قافلہ اپنے شیخ و مرشد کی سرپرستی اور نگرانی میںایرپورٹ کی طرف روانہ ہوا۔

ایر پورٹ سے سوئے حرم روانگی :

شمس آباد ( حیدرآباد) ایر پورٹ پر بھی چھوڑنے والوں کا ایک ہجوم جمع ہو گیا تھا، فلائٹ کا وقت قریب ہو رہا تھا یکے بعد دیگرے سلا م و مصافحہ کے بعد قافلہ اندر کی طرف رخصت ہو ا۔امیگریشن اور ضروری کارروائیوں کے بعد شمس آباد ایر پورٹ کے انتظار گاہ میں سب لوگ جمع ہو گئے۔ دو سفید کپڑوں میں ملبوس، ایک طرح کا لباس،حالت احرام میں،زبان پر تلبیہ کا ورد، دل میں عجیب شوق کی کیفیت میں ڈوب کر تمام زائرین جلد حرم پہنچنے کی تمنا لئے فلائٹ کا انتظار کررہے تھے، حضرت حافظ صاحب یہاں بھی اپنے مریدین کو وقفہ وقفہ سے نصیحتیں فرمارہے تھے اور انہیں بارگاہ خداوندی کے آداب سے واقف کرارہے تھے، تقریباً پانچ بجے شام فلائٹ کا وقت تھا، ٹھیک وقت پر فلائٹ کا اعلان ہوگیا اور اب زندگی کی سب سے بڑی تمناکی تکمیل کا وقت قریب ہو رہا تھا۔ کچھ ہی دیر کے بعد فلائٹ آپہنچی اور ہم لوگ اپنے شیخ کی نگرانی میں دعاء پڑھتے ہوے فلائٹ پر سوار ہو گئے۔پھر کیا تھا سب کے چہرے پر بشاشت اور تازگی چھاگئی، یہ سعودی ایئر لائنس تھا جس میں پرواز سے پہلے سفر شروع کرنے کی دعائوں کے پڑھائے جانے کا اہتمام ہوتا ہے۔ پوری فلائٹ میں اکثر ہماری طرح احرام میں ملبوس تھے جو الگ الگ جگہوں سے آئے ہوے تھے۔ سفر کی دعاء پڑھنے کے بعد فلائٹ نے اڑان شروع کی۔ خوش گوار ماحول میں فلائٹ نے جدہ کی طرف اپنا سفر شروع کیا۔ عربی اور انگریزی میں خارجی موسم آب و ہوا کے دباؤ اور مختلف جانکاری سے متعلق باتیں بتائی جاتی رہیں۔ میقات سے پہلے اعلان کیا گیا کہ جن لوگوں نے احرام نہیں باندھا ہے وہ احرام باندھ لیں اور تلبیہ پڑھ کر احرام کی نیت کر لیں کیوں کہ میقات سے بغیر احرام کے گذرنے سے دم واجب ہو جاتا ہے، سعودی ایئر لائنس میں تھوڑی جگہ بھی مخصوص ہوتی ہے جہاں نماز اور احرام باندھنے کی سہولت ہوتی ہے۔پوری فلائٹ تلبیہ سے گونج رہی تھی اور جوں جوں جدہ سے قریب ہو رہے تھے دھڑکنیں بڑھ رہی تھیںاور خوشیوں میں اضافہ ہو رہا تھا۔ تقریباً چھ گھنٹہ کے سفر کے بعد ہم لوگ جدہ ایر پورٹ پہنچے، اب ہم لوگ سرزمین مقدس پر تھے۔

ہم لوگ ایر پورٹ سے باہر نکلے تو پہلے سے کچھ لوگ ہمارے انتظار میں کھڑے تھے جو شاید ہمیں عمرہ کرانے اور ہماری تمام ضرورتوں کی تکمیل کے ایجنٹ تھے، پارکنگ میں عصری سہولیات کے موافق ایک بس کھڑی تھی، ہم لوگ اس پر سوار ہو گئے اور اب تیزی سے ہم اپنے شیخ کے ساتھ بیت اللہ کی طرف رواں دواں ہو گئے۔رات کا وقت تھا، کچھ دور تک سڑکوں کی دونوں جانب لگی ہوی روشنیوں اور قمقمے سے عالیشان اور خوب صورت عمارتیں نظر آرہی تھیں مگر کچھ دور نکلنے کے بعد روشنیوں کا سلسلہ ختم ہو گیا اور اب پہاڑیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا، شوق حرم نے نیند اڑادی تھی، تہجد کا وقت ہوگا جب ہم لوگ مکۃ المکرمہ پہنچے۔ ایک ہو ٹل پر ہم لوگ پہنچے جو حرم سے نصف کیلو میٹر دوری پر واقع تھا۔ حضرت حافظ صاحب دامت برکاتہم کے ساتھ آپ کی اہلیہ محترمہ( پیرانی ماں صاحبہ ) اور فرزند ارجمندعزیزم حافظ عبدالغفور قریشی مصدق بابا سلمہ بھی تھے، اس لئے آپ کے لئے حرم کے سامنے ایک دوسرے ہوٹل میں ٹھہرنے کا نظم تھا۔

خادم قوم وملت کی قیمتی نصیحتیں:

حضرت حافظ صاحب دامت برکاتہم کی ہدایت کے مطابق ہوٹل میں اپنا سامان رکھنے کے بعد ہم لوگ عمرہ کے لئے حرم شریف پہنچے،حضرت حافظ صاحب کے ساتھ حرم میں ہم لوگوں نے فجر کی نماز ادا کی، نماز کے بعد آپ نے بیت اللہ شریف کی زیارت سے پہلے اپنے مریدین کو اس کے بارے میں بتایا کہ :’’ اس گھر کی عظمت کے لئے یہی کافی ہے کہ اس کی نسبت اللہ کی طرف ہے۔ اس سرزمین پر سب سے پہلے اسی کی تعمیر کی گئی تھی، سیدنا حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ میری عبادت کے لئے یہاں ایک گھر کی تعمیر کریں، حضر ت جبرئیل علیہ السلام کے ذریعے موجودہ جگہ کی نشاندہی کی گئی جہاں ابوالبشر سیدنا حضرت آدم ؑ نے اس کی تعمیر کی، ارشاد باری ہے : إِنَّ أَوَّلَ بَیْْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبَارَکاً وَہُدًی لِّلْعَالَمِیْنَ ( آل عمران۔ ۹۶) ’’ بلاشبہ پہلا گھر جو لوگوں کے لئے بنایا گیا وہ ہے جو کہ بکہ ( مکہ مکرمہ) میں ہے، بابرکت اور سارے جہاں کے لئے رہنمائی کا ذریعہ ہے‘‘ … حضرت نوح علیہ السلام کے زمانہ میں طوفان کی وجہ سے اس کی عمارت گر گئی اور صرف اس کی بنیاد باقی رہ گئی تھی، پھر اللہ کے حکم سے اسی بنیاد پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہماالسلام کے ساتھااخلاص و للہیت کے جذبہ سے سرشار ہوکر بیت اللہ شریف کی تعمیر کی اور اللہ نے ان کی خدمت کو ایسے قبول کیا کہ صدیاں گذرنے کے باوجود یہ گھر آج بھی نغمۂ توحید سے معمور اور امن کا گہوارہ ہے، ہر سال لاکھوں کی تعداد میں رب کعبہ کے غلام اس پاک گھر کی زیارت کے لئے کھنچے چلے آتے ہیں، دن رات میں شاید ہی کوئی وقت اور لمحہ ایسا آتا ہوگا جس میں کوئی بندہ ٔ مومن اس مقدس گھر کے طواف میں مشغول نہ ہو۔ 1941 میں جب یہاں موسلا دھار بارشوں کی وجہ سے سیلاب آگیا تھا اور مطاف میں ڈیڑھ میٹر تک پانی کھڑا ہو گیا تھا، اس وقت بھی پانی میں تیرتے ہوے طواف جاری تھا۔ بحرین کے نوجوان علی العویضی کا نام اس بارے میں سب سے زیادہ مشہور ہے، اس سے پہلے صحابی رسول حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ نے اس کا طواف تیر کر کیا تھا اور بھی مختلف زمانوں میں اس کی مثال موجود ہے۔ ایسے مقدس گھر کے طواف اور زیارت کے لئے ہم سب کو اللہ تعالی نے قبول کیا اور یہ قیمتی موقع عطا کیا، اس کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے۔

حضرت نے فرمایا :کہ بیت اللہ شریف پر نظر پڑتے ہی دل میں ایک عجیب رقت پیدا ہوتی ہے اور اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے، گویا ہم اپنے رب کے قدموں پر آگئے ہیں، اس لئے اس پر نظر پڑتے ہی جو دعاء کی جاتی ہے وہ قبول ہوتی ہے۔ بہتر یہ ہے کہ اپنی نگاہوں کو نیچے کرتا ہوا نہایت عجز و انکساری کے ساتھ بیت اللہ کے قریب تک جائیں جہاںسے اس پر صاف نظر پڑ سکے، وہاں کھڑے ہو کر دل میں اللہ کی بے پناہ عظمت و جلال اور اس کے تقدس کو سامنے رکھتے ہوے خوب دعاء مانگیں اور اپنی ضروریات کا اظہار کریں۔ایمان پر استقامت، اپنی ہر دعاء کی قبولیت، صحت و عافیت، اپنی اور والدین کی مغفرت، خوش گوار حالات، اسلام اور امت مسلمہ کے حق میں خوب دعاء کریں اور اللہ کی ذات سے امید رکھیں کہ وہ اس مقدس گھر کے صدقے میں ضرور ان دعاؤں کو قبول کریں گے۔

ان ہدایات کے بعد ہم لوگ آگے بڑھے اور حرم شریف سے گذرتے ہوئے جب خانۂ کعبہ کے بالکل قریب پہنچے تو نگاہ اٹھائی، دل پررقت اور خاص کیفیت طاری تھی، آنکھوں سے آنسو جاری تھے، زندگی کا ارمان آج پورا ہورہا تھا، جس گھر کی طرف رخ کرکے پوری زندگی نماز پڑھتے رہے،آج وہ مقدس گھر نگاہوں کے سامنے تھا۔ ہم سب کے شیخ و مربی حضرت حافظ صاحب دامت برکاتہم نے اس موقع پر نہایت رقت انگیز دعاء کرائی، ایک ایک جملہ پر بدن کانپ جارہا تھا، رونگٹے کھڑے تھے اور واقعتاً ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ہم لوگوں پر رحمتوں کی بارش ہو رہی ہے، ہم اپنی آنکھوں سے رب کو دیکھ رہے ہیںاور اس کی بارگاہ میں ایک ادنیٰ غلام کی طرح دست بستہ کھڑے ہیں۔ روتے روتے بعض لوگوں کی ہچکیاں بندھ گئیں جس طرح ایک بچہ اپنی ماں کی گود میں جاکر سکون محسوس کرتا ہے ویسے ہی وہاں طمانیت کا ایک سماں بندھا ہوا تھا اور قلب و جگر میں اپنے رب کے وجود کا یقین چھایا ہوا تھا۔

خادم قوم وملت کے ہمراہ خانہ ٔ خدا کا طواف:

دعا سے فراغت کے بعد آگے بڑھے اب ہم مطاف میں پہنچ چکے تھے، یہاں بہت زیادہ اژدھام تھا کہ حجر اسود کے قریب جانا بہت مشکل تھا، اس لئے مسئلہ کے مطابق حجر اسود کے محاذات سے استلام کے بعد ہم لوگوں نے حضرت حافظ صاحب کی نگرانی میں طواف کعبہ شروع کیا، انتہائی آرام اور سکون کے ساتھ تقریباً آدھے گھنٹہ میں طواف مکمل ہوا،میں نے طواف کے دوران محسوس کیا کہ حضرت حافظ صاحب دامت برکاتہم نہ تو حجر اسود کے قریب جانے کی بے جا کوشش کررہے ہیں اور نہ ہی طواف میں عجلت کرتے ہیں بلکہ متانت، سنجیدگی اور انتہائی وقار کے ساتھ آپ بیت اللہ کے ارد گرد نیاز مندانہ چکر لگا رہے ہیں، زبان پر دعائیںاور ذکرو اذکار کا ورد ہے اور نگاہ نیچی ہے، اگر کوئی عورت سامنے آجائے یا کوئی مرد آپ کے سامنے گذرنا چاہے تو آپ ٹھہر جاتے ہیں اور اسے گذرنے دیتے ہیں یا آپ تھوڑا اس سے کنارہ ہو جاتے ہیں تاکہ سامنے والے کو کوئی تکلیف نہ ہوجب کہ وہاں دنیا کے مختلف گوشوں سے آنے والے مردو عورت کو دیکھا کہ وہ اژدھام کو چیرتے پھاڑتے، گرتے پڑتے حجر اسود کو بوسہ لینا چاہتے ہیں، اس کے لئے وہ خود اپنے آپ کو پریشانی میں ڈالتے ہیں اور دوسروں کو بھی اذیت پہنچاتے ہیں اس بارے میں مسئلہ یہ ہے کہ اگرحجر اسود کو چھونا یا بوسہ لینا آسان نہ ہو تو دور سے کھڑا ہو کر اس کی طرف اپنا ہاتھ اٹھا کر اپنے ہاتھ کا بوسہ دے دے،وہی فضیلت اور ثواب حاصل ہو جائے گا۔ چنانچہ حضرت عبداللہ ابن عباس کا بیان ہے کہ رسول اکرم ؐنے حجۃ الوداع میں اونٹ پر بیٹھ کر طواف کیا تو جب بھی حجر اسود کے پاس سے گذرتے تو اپنی چھڑی کے ذریعے حجر اسود کی طرف اشارہ فرماتے اور اسی چھڑی کا استلام کیا کرتے تھے( صحیح بخاری۔ ۱۶۰۷)۔ کبھی آپ ؐ نے راست بوسہ بھی دیا اور کبھی اس طرح کرکے امت کے لئے بڑی آسانی پیدا کی گویا رسول اکرم ؐکے عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں کی گنجائش ہے فرق صرف یہ ہے کہ بھیڑ ہونے کی صورت میں محض ہاتھ سے استلام کر لیا جائے اور اسی پر اکتفا کرے، خواہ مخواہ لوگوں کو تکلیف نہ پہنچائے اور اگر بھیڑ نہ ہو اور آسانی سے حجر اسود کو بوسہ دینے پر قدرت ہو توراست بوسہ دینے کی سعادت حاصل کرنی چاہئے یہ مستحب ہے۔ حضرت حافظ صاحب لوگوں کے اس طرح بوسہ دینے کے لئے ٹوٹ پڑنے پر فرما یا کہ حجر اسود کا بوسہ دینا یا اسے چھونا عملِ مستحب ہے اور کسی کو اذیت دینا حرام ہے تو ایک مستحب عمل کے لئے حرام کام کا ارتکاب کرنا جائز نہیں ہے، اس سے ہمیں بچنا چاہئے، اگر آپ میں سے کسی کو حجر اسود کو بوسہ دینے یا راست چھونے کا واقعی جذبہ ہے تو آدھی رات کے بعد یا سحرکے کسی مناسب وقت کا انتظار کیجئے آپ اس وقت آسانی سے حجر اسود کا بوسہ لے سکیں گے۔

حلم وبردباری کا عملی نمونہ:

اللہ تعالیٰ نے حضر حافظ صاحب دامت برکاتہم حلم وبردبار بنایا ہے،یہاں پر اس کا عملی نمونہ دیکھنے میں آیا اور جسے دیکھ کر ہم کو بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا،حضرت حافظ صاحب دامت برکاتہم نے طواف، سعی یا کسی عمل کے دوران کہیں بھی عجلت، جلد بازی، بھاگ دوڑ، جذبات میں بے قابو ہوجانا ہر گز دیکھنے میں نہیں آیا بلکہ حددرجہ وقار، متانت، سنجیدگی،بردباری،قدرو منزلت اور انکساری نظر آئی یہ اللہ کی جانب سے بڑا عطیہ اور انعام ہوتا ہے جو مقربین کو عطا ہوتا ہے، چنانچہ حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ؐ نے اشجع عبدالقیس سے فرمایا تھا : ان فیک خصلتین یحبہما اللہ الحلم و الاناء ۃ ( صحیح مسلم۔ ۱۷۔ ۲۵) ’’ تمہارے اندر دو خصلتیں بہت اچھی ہیں جن کو اللہ پسند کرتا ہے ایک حلم یعنی بردباری اور دوسرے سنجیدگی یعنی عجلت کے بغیر کوئی کام کرنا‘‘،یہ دونوں صفتیں حضرت حافظ صاحب دامت برکاتہم میں تمام مریدین نے محسوس کیا، وہاں بھی اور یہاں مرکز خدمت خلق میں بھی، سفر اور حضر ہر جگہ وقار اور اپنی شخصیت کے رکھ رکھاؤ کو کبھی متأثر ہونے نہیں دیا،میرا یہ پہلا عمرہ تھا اگر میں تنہا آتا تو شاید آداب و مستحبات کی رعایت نہ ہوتی اور ارکان عمرہ کی ادائیگی یا سفر میں متانت پیدا نہ ہوپاتی اور عمرہ کا حق ادا نہ ہوتا لیکن حضرت حافظ صاحب کی رہنمائی اور معیت نے پورے سفر میں اعتدال پیدا کر دیا تھا اور میری طرح تمام رفقاء میں صبرو تحمل کا مزاج پیدا ہو گیا تھا، مکمل اطمینان اور سکون کے ساتھ سنن و آداب کی رعایت کرتے ہوے جیسے جیسے حضرت نے کیا ویسے ویسے ہم لوگ کرتے چلے گئے جس سے عمرہ کی حقیقی لذت و روحانیت، قلبی فرحت و شادمانی کا احساس ہوا اور یقین ہو گیا کہ اپنے شیخ کی نگرانی اور معیت میں عمرہ کرنا تنہا عمرہ سے بدرجہابہتر اور موجب طمانیت ہے۔

مقام ابراہیم پر نماز کی ادائیگی:

ہم نے مکمل اطمینان کے ساتھ طواف کے سات چکر پورے کر لئے، اس کے بعد مقام ابراہیم کے پاس پہنچ کر ہم لوگوں نے دو رکعت واجب الطواف پڑھی، یہ نمازطواف مکمل ہونے کے بعد پڑھی جاتی ہے، یہ دورکعت احناف کے نزدیک واجب اور دوسرے ایمہ کے پاس سنت ہے جو باعث فضیلت ہے، ارشاد خداوندی ہے : ً وَاتَّخِذُواْ مِن مَّقَامِ إِبْرَاہِیْمَ مُصَلًّی ( البقرۃ۔ ۱۲۵) ’’ اور تم مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بنا لو‘‘ … نماز کے بعد دعاء کی اور پھر آب زمزم کی جگہ جاکر اس سے خوب سیراب ہوے۔

صفا ومروا کے سعی کی حکمت:

یہاں سے سیدھا صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنے کے لئے صفا پہاڑ پر پہنچے،اس جگہ ہم لوگوں کو حضرت حافظ صاحب دامت برکاتہم نے سعی کی حکمت کے بارے میں بتایا کہ:’’ آج سے ہزاروں سال پہلے یہ جگہ صحرا اور سنسان جگہ تھی، اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کا امتحان لینا چاہا،چنانچہ بہت ارمانوں کے بعد جب حضرت ہاجرہ علیہا السلام کے بطن سے حضرت اسماعیل علیہ السلام پیدا ہوے تو ان کو حکم دیا گیاکہ وہ اپنی بیوی اور بچہ کو اس جگہ لق و دق وادی میں تنہا چھوڑ دیںاور وہ واپس چلے آئیں۔ یہ حکم پاکر کسی تردد کے بغیر بیوی بچہ کو لے کر یہاں پہنچے اور جہاں آج آب زمزم کا کنواں ہے اس جگہ چھوڑ کر واپس جانے لگے۔ حضرت ہاجرہ ؑ کے بارہا پوچھنے پر انہوں نے کچھ نہیں کہا، اخیر میں صرف یہ بتایا کہ یہ اللہ کا حکم ہے۔ حضرت ہاجرہ ؑ نے جیسے ہی یہ بات سنی کہ اللہ کا حکم ہے تو انہیں اطمینان ہو گیا اور اس چٹیل میدان میں بڑے یقین اور بھروسہ کے ساتھ کہا کہ اگر اللہ کا حکم ہے تو وہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا،جو کھجوریں ان کے پاس تھیں وہ ختم ہو گئیں اور پانی بھی ختم ہو گیا، اسی حال میں وہ اپنے بچہ کو دودھ پلاتی رہیں لیکن چند ایام کے بعد ان کے سینہ کا دودھ بھی خشک ہوگیا اور اب ماں کے ساتھ معصوم بچہ بھی پیاس سے تڑپنے لگا۔ ماں کی ممتا جوش میں آئی، وہ پانی کی تلاش میں نکلی اور وہاں سے صفا پہاڑی کی طرف آئی، اس پر چڑھ گئی شاید وہاں سے پانی پر نظر پڑ جائے یا کسی قافلہ پر نظر پڑے جو پانی کا پتہ بتا سکے لیکن کوئی نظر نہ آیا وہاں سے مروہ پہاڑ کی طرف چلی،بے تابی کے عالم میں کبھی اپنے بچہ پر بھی نظر ڈالتی کہ مبادا کہیں کوئی جانور اسے نقصان نہ پہنچا دے، پھر آگے بڑھتی جب نشیب میں پہنچی جہاں سے بچہ نگاہ سے غائب ہوگیا اور وہاں سے بچہ کو دیکھنا مشکل تھا تو کچھ دور نشیبی جگہ کو دوڑ کر طے کیا، پھر جہاں سے بچہ پر نظر پڑنے لگی وہاں دوڑنا بند کردیا، آگے معمول کی رفتار سے مروہ پہاڑ پر پہنچی وہاں سے ادھر ادھر نظر دوڑائی لیکن کہیں نہ تو پانی نظر آیا اور نہ ہی کوئی قافلہ، وہاں سے اسی طرح دوڑتے ہوے صفا پر پہنچی اس طرح دونوں پہاڑیوں کے درمیان سات مرتبہ چکر لگایا۔ ساتویں بار جب مروہ پر پہنچی تو بچہ کے پاس پانی بہتا ہوا دیکھا وہاں سے دوڑی ہوی واپس آئی اور پانی کے ارد گرد منڈیر بنانے لگیں، حدیث شریف میں ہے کہ اگر وہ پانی نہ روکتی تووہ نہر کی شکل میں جاری چشمہ بن جاتا( صحیح بخاری) وہی پانی آج بھی جاری ہے جس کو آب زمزم کہا جاتا ہے … حضرت حوا علیہا السلام کی اس بیٹی کا ایمان ویقین اور اس سنسان وادی میںاپنے رب پر توکل و اعتماد اللہ تعالیٰ کو اتنا پسند آیا کہ ان کی ادا کو رہتی دنیا تک کے لئے حج اور عمرہ کا ایک رکن بنا دیا‘‘،اس مختصر سی نصیحت اور گفتگو کے بعد حضرت حافظ صاحب دامت برکاتہم کے ساتھ ہم لوگوں نے سعی شروع کی،تقریباً آدھے گھنٹہ میں یہ عمل پورا ہوا،اس کے بعد پھر آب زمزم کے پاس آکر اس سے لطف اندوز ہوئے اور پیٹ بھر کر اس سے سیرابی حاصل کی، پھر حرم شریف کے سامنے ایک نائی کی دکان پر پہنچے جہاں کافی اژدحام تھا لیکن یکے بعد دیگرے ہم سب نے سر منڈوایا اور اس طرح اپنے شیخ کی نگرانی میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے پہلا عمرہ مکمل ہوا۔ (جاری ہے)



ہمیں فالو کریں


Google News

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *