بنگلورو: ایک بڑی پیشرفت میں کرناٹک کی کانگریس حکومت نے جمعہ کے دن کہا کہ وہ متنازعہ دتاپیٹھ بابا بڈن گری درگاہ تنازعہ کا مستقل حل تلاش کرنے کے لئے پرعزم ہے۔
ریاستی وزیر داخلہ جی پرمیشور نے بنگلورو میں ودھان سودھا کانفرنس ہال میں ارکان ِ اسمبلی‘ نمائندوں اور ضلع چکمگلورو کے مذہبی رہنماؤں کے ساتھ مشاورتی اجلاس منعقد کیا۔ دتاپیٹھ بابا بڈن گری درگاہ تنازعہ کے تعلق سے خصوصی درخواست سپریم کورٹ میں زیرالتوا ہے۔ میٹنگ میں نمائندوں‘ مذہبی رہنماؤں اور چمگلورو کی مختلف تنظیموں کے قائدین کی رائے لی گئی۔ وزیر داخلہ پرمیشور نے کہا کہ اس مسئلہ کا مستقل حل نکالنا ضروری ہے۔
حکومت نے کرناٹک میں امن اور ہم آہنگی کی برقراری کے لئے یہ مسئلہ حل کردینے کا فیصلہ کیا ہے۔ میٹنگ کے بعد میڈیا سے بات چیت میں انہوں نے کہا کہ کرناٹک میں چندردرونا پہاڑی پر واقع دتاپیٹھ بابا بڈن گری درگاہ مذہبی ہم آہنگی کی علامت ہے۔ 1975 تک یہاں مذہبی سرگرمیاں پرامن رہیں۔ اس کے بعد تنازعات دیکھے گئے۔ حکومت نے یہ مسئلہ حل کرنے کی کئی کوششیں کی۔
ہم نے دیکھا ہے کہ ہندو اور مسلمان دونوں فرقے اس معاملہ کو عدالت لے گئے۔ ریکارڈ کی جانچ اور اسے عدالت کے سامنے رکھنے کے لئے کمیٹیاں اور کابینہ کی سب کمیٹیاں بنیں۔ بعض لوگ یہ مسئلہ سپریم کورٹ میں لے گئے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت نے طئے کیا ہے کہ اس تنازعہ کو مستقل طورپر حل کردیا جائے۔ چیف منسٹر سدارامیا کی قیادت میں بنی کابینی سب کمیٹی کی 4 میٹنگس ہوچکی ہیں۔ کئی کاغذات کا جائزہ لیا گیا۔
7 جنوری کو سپریم کورٹ نے حکومت کو ہدایت دی کہ وہ 24 مارچ تک اپنی رائے دے۔ اس کے مدنظر ہم نے چکمگلورو کے نمائندوں اور مذہبی قائدین سے مشاورت کی۔ آئندہ ہفتہ کابینی سب کمیٹی کا اجلاس طلب کیا جائے گا۔ ہم درکار جانکاری عدالت کو دیں گے۔
عدالت کے فیصلہ کی بنیاد پر آگے کی کارروائی ہوگی۔ میٹنگ میں وزیر ٹرانسپورٹ رامالنگاریڈی‘ وزیر توانائی کے جے جارج‘ وزیر مال کرشنا بائرے گوڑا‘ وزیر امکنہ و اوقاف بی زیڈ ضمیر احمد خان‘ رکن پارلیمنٹ کوٹاسرینواس پجاری‘ ارکان ِ اسمبلی ایچ ڈی تمیا‘ نین موٹما‘ رکن ِ قانون ساز کونسل سی ٹی روی‘ مذہبی قائدین اور ضلع چکمگلورو کے عہدیداروں نے شرکت کی۔
متنازعہ مقام کو اکثر کرناٹک کا ایودھیا کہا جاتا ہے۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین ہم آہنگی کی علامت ہونے کے باوجود یہ درگاہ گزشتہ 30 برس سے بحران میں گھری ہے۔ ضلع چکمگلورو میں ہندو اور مسلمان دونوں فرقے اس درگاہ میں جاتے ہیں تاہم بی جے پی کا مطالبہ ہے کہ اسے ہندو مندر قراردیا جائے۔ 1964 سے قبل ہندو اور مسلمان دونوں کے نزدیک یہ مقام قابل ِ احترام تھا۔ صوفی کلچر اور ہندو۔ اسلامی تہذیب کا اتحاد یہاں دیکھا جاتا تھا۔
ہندو اس پہاڑی کو دتاتریہ کی سمادھی سمجھتے ہیں جبکہ مسلمانوں کا ماننا ہے کہ یہ درگاہ جنوبی ہند میں تصوف کے ابتدائی مراکز میں ایک ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ صوفی بزرگ داداحیات میر قلندر پہاڑی پر کئی سال مقیم رہے۔ تنازعہ سے خط نظر مقامی کافی کاشتکار فصل کٹائی سے قبل درگاہ جاتے ہیں اور دعائیں مانگتے ہیں۔ یمن کے 17 ویں صدی کے صوفی بزرگ فقیر بابا بڈن کو برصغیر میں کافی کے بیج بونے کا اعزاز حاصل ہے۔