کیانفرت کا شور پھر اٹھنے والا ہے؟ دہلی اسمبلی انتخابات کو جارحانہ رخ پر لے جانے کی کوشش

تحریر:سید سرفراز احمد

ملک کی راج دھانی دہلی کا انتخابی بگل بج چکا ہے سیاسی اکھاڑا تیار ہورہا ہے پھر وہی الزمات کی بارش ایک دوسرے پر سنگین بہتان تراشی اور ہندو مسلم سیاسی کارڈ غرض یہ کہ ہر الیکشن کی طرح اس الیکشن میں بھی یہ سب دیکھنے کو ملے گابعض لوگ مزے لوٹیں گے کچھ لوگ اس نکمی سیاست کو اپنے اعصاب پر چڑھاکر شب و روز کی نیندیں حرام کرلیں گے بددیانت نیتا طبقہ یہی تو چاہتا ہے کہ لوگ روزی روٹی کے خول سے باہر نکل کر مذہب کی سیاست میں الجھے رہیں حالانکہ سیاست داں اپنے سیاسی مفادات کی خاطر نفرت انگیزی کا سہارا لیتے ہیں تاکہ سیاسی بھوک کو مٹایا جاسکےلیکن اس بات کی انھیں بالکل بھی پرواہ نہیں ہوتی کہ سماج پر اس کےکیا مضرات پڑیں گے یہ تو بس اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل میں مگن ہوتے ہیں اور ادھر ہندو مسلم مذاہب میں گھمسان چلتا رہتا ہے دہلی الیکشن میں بھی شائد یہی سب ہونے والا ہے چونکہ موجودہ نظاروں سے یہی اشارے مل رہے ہیں۔

 

 

دہلی جہاں بھاجپا کے لیئے ایک چیلنج ہے وہیں عآپ کے لیئے بھی ایک بڑا چیلنج ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ عآپ کے پاس علاقائی سطح کا مضبوط چہرہ ہے جو بھاجپا کے پاس موجود نہیں ہے تب ہی بھاجپا کو مودی کے چہرے پر ہی دہلی الیکشن لڑنا ہے اب بھلا مودی جی بار بار تھوڑا ہی شرمندہ ہونگے چونکہ سابق دو اسمبلی انتخابات میں دہلی کی عوام نے نریندر مودی جیسے مضبوط چہرے اور چھپن انچ سینہ رکھنے والے کو بری طرح سے مات دے کر ٹھکرادیا تھا نہ نفرت کا پرچار کام کرسکا نہ مندر مسجد کی سیاست نے دم بھرا تھا لیکن بھاجپا کرے بھی تو کیا کرے اس کے پاس ہےبھی کیا جو عوام میں تقسیم کرسکے سواۓ نفرت کی ریوڑیوں کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے جو دہلی کی عوام کو شائد قبول نہیں ہے بھاجپا اور نریندر مودی کے لیئے یہ ایک زور دار طمانچہ تھا کہ وہ جس مقام پر براجمان ہوتے ہوۓ ملک کی باگ ڈور سنبھالے ہوۓ ہیں گیارہ سالوں سے اپنے شب وروز گذار رہے ہیں وہاں اپنا کوئی معمولی اثر و رسوخ بھی نہیں چھوڑ سکے۔

 

 

الیکشن کمیشن آف انڈیا نے ستر اسمبلی نشستوں والی دہلی کا 5/ فروری کو انتخابات کروانے کا اعلان کیا اور 8/فروری کو نتائج کا اعلان کردیا جاۓ گا پھر دہلی کی عوام باگ ڈور جس کے ہاتھ میں تھامے گی وہ راج دھانی کی عوام کے خوابوں کو سنوارے گا یا خاک میں ملاۓ گا یہ تو آنے والا وقت طئے کرے گا دہلی اسمبلی انتخابی مہم کے لیئے سیاسی پارٹیوں کے پاس اچھا خاصہ وقت پڑا ہوا ہے لیکن سچ کہیں تو اس وقت میں بہت کچھ کیا جاسکتا ہے مہذب سماج کو غیر مہذب سماج میں بدلا جاسکتا ہے دلوں کی محبت کو نفرتوں میں بدلا جاسکتا ہے سیکولر اور سنجیدہ عوام کو کٹرفرقہ پرست بنایا جاسکتا ہے ایک دوسرے کی عبادت گاہوں کا احترام کرنے والوں کو بے حرمتی کے شیدائی بنایا جاسکتا ہےاگر چہ کہ سیاست عوام کی ترقی،روزگار،مکان،تعلیم و دیگر مسائل پر ہوتی رہے تو بات ہی کچھ اور ہوگی لیکن ایسا نہیں ہوسکتا۔

 

 

سال 2020 میں عام آدمی پارٹی نے 70 نشستوں کے بمقابلے 62 نشستوں پر جیت درج کرواکر تاریخ رقم کی تھی وہیں بھاجپا کو صرف 8 نشستوں پر اکتفا کرنا پڑا اب ایسے میں کانگریس کی بات بھی نہیں کی جاسکتی ماضی میں شیلا ڈکشٹ کی قیادت میں ملک کی راج دھانی پر پندرہ سال تک حکومت کرنے والی کانگریس کو اپنا خمیازہ بھگتنا پڑا اسی نوعیت سے اس بار بھی کانگریس سے کچھ خاص مظاہرے کی توقع نہیں کی جاسکتی ممکن ہے کو دو چار نشستیں حاصل کرلے لیکن اصل مقابلہ عآپ اور بھاجپا کا ہی ہوگا بھاجپا کا نام اس لیئے بھی جوڑا جارہا ہے کہ اس بار وہ دہلی الیکشن میں فرقہ پرستی کے جارحانہ تیور دکھا سکتی ہے بھاجپا نے ایک طرف یہ تو دکھا دیا ہے کہ وہ نفرت اگلنے والے رمیش بھدوری کو ٹکٹ دے کر ثابت کردیا کہ وہ نفرت اگلنے والوں کی ہی آو بھگت کرتی ہے دوسری طرف یہ خبریں گردش کررہی ہے کہ ملعون و گستاخ رسولﷺ نپور شرما کو بھی بھاجپا دہلی کے سیاسی اکھاڑے میں اتارنے کی تیاری کررہی ہے اب ہم بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ بھاجپا کس قدر جارحانہ سیاست کرنے جارہی ہے۔

 

 

بھاجپا کے سیاسی قائدین کو یہ پتہ چل چکا ہے کہ بھاجپا میں رہتے ہوۓ آگے بڑھنا ہے تو بے لگام زبان کا استعمال کرتے ہوۓ بڑے بڑے عہدوں پر پہنچاجاسکتا ہے رمیش بھدوری بھی سرخیوں میں اس وقت سےچھاۓ رہے جب انھوں نے لوک سبھا کے ایوان میں دانش علی کو دہشت گرد اور کٹ ملّا کہا ایک عوامی راۓ سے منتخب کردہ رکن پارلیمان کے متعلق اس طرح نچلی سطح کی زبان کا استعمال دستور کی صریح خلاف ورزی بھی تھی لیکن بھاجپا نے کوئی کاروائی نہیں کی بلکہ بھاجپا کے دیگر اراکین لوک سبھا بھی بھدوری کی اس بدزبانی پر قہقہے لگارہے تھے بھاجپا نے حکمتاً لوک سبھا انتخابات میں انھیں ٹکٹ نہیں دیا اور اب ثابت کردیا کہ ہمارا اوڑھنا بچھونا ہی نفرت پر مبنی ہے حال ہی میں بھدوری کا ایک ویڈیو سامنے آیا ہے کالکاجی جہاں سے وہ اسمبلی سیٹ سے بی جے پی کے امیدوار ہیں جس میں وہ کہتے ہیں کہ ’’لالو نے وعدہ کیا تھا کہ بہار کی سڑکوں کو ہیما مالنی کے گالوں جیسا بنا دوں گا لیکن وہ ایسا نہیں کر پائے میں آپ کو یقین دلاتا ہوں جیسے اوکھلا اور سنگم وہار کی سڑکیں بنا دی گئی ہیں ویسے ہی کالکاجی میں ساری کی ساری سڑکیں پرینکا گاندھی کے گال جیسی بنا دوں گا۔‘‘

 

 

یقیناً یہ ایک انتہائی ہتک آمیز بیان ہے چاہے کوئی بھی سیاست داں ہو اس کو غیرشائستگی کی پستی تک اس قدر نہیں جانا چاہیئے لیکن کیا کریں جنھیں یہی سب کہہ کر تو پانی پر تیرنا ہے ورنہ بھاجپا انھیں گھانس ڈالنا تو دور کی بات ہے نظر بھی نہیں ڈال سکتی ملعون نپور شرما بھی شان رسالت اقدس میں گستاخانہ جملے کہہ کر اڑان بھرنے کی کوشش کی لیکن ہنگامہ اس قدر شدید ترین ہوا کہ بھاجپا نے بظاہر سہی نپور شرما کو باہر کا راستہ دکھایا تھا لیکن اب دہلی میں اس ملعون کو اپنا امیدوار بنانے کی تیاری کررہی ہے اس بات سے ہم اندازہ لگاسکتے ہیں کہ بھاجپا کی دہلی اسمبلی انتخابات میں تیاری کس قسم کی چل رہی ہے جو آگے کی انتخابی ریالیوں اور انتخابی مہم سب کچھ عیاں کردے گی بس تھوڑا انتظار کریں کیونکہ اندیشہ ہے کہ بھاجپا حالیہ ہوۓ لوک سبھا کے بدلے بدلے سماں اور آئندہ کے لیئے بیساکھی کو ہٹانے کی خاطر دہلی میں جوش و خروش دکھاکر بھر پائی کرنا چاہتی ہے تاکہ آگے کے مراحل آسانی سے سفر کرسکیں۔

 

بھاجپا اس دہلی الیکشن میں اس کے اپنے جتنے نفرتی قائدین ہے وہ ان تمام کو دہلی میں جھونک دے گی جس طرح حیدرآباد میں جو مناظر دیکھنے کو ملے تھے شائد اب ویسا ہی کچھ منظر دہلی میں دیکھنے کو ملے گا نریندر مودی، امیت شاہ، ہیمنت بسوا سرما، یوگی،موہن یادو،انوراگ ٹھاکر کے علاوہ دیگر چھوٹے چھوٹے نفرتی قائدین جم کر نفرت کا پرچار کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں گودی میڈیا کو واپس اپنے کام پر لگادیا گیا وہیں پر اروند کیجریوال کی سیاست آج تک یہ نہیں سمجھا سکی کہ وہ کس طرح کی سیاست کرتے ہیں لیکن ان کی سیاست میں منافقت کا رنگ ضرور جھلکتا ہے جہاں وہ ترقی کی باتیں کرتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ غیر شعوری طور پرمذہب کی بھی سیاست کو فروغ دینے کی کوشش کرتے ہیں کیجریوال نے مندروں کے پجاریوں گرودواروں کے گرنتھوں کو پجاری گرنتھی سمان یوجنا اسکیم کے تحت اٹھارا ہزار ماہانہ اعزازیہ دینے کا اعلان کیا ہے جب کہ حال ہی میں آئمہ مساجد کی جانب سے سترہ ماہ سے حکومت کا اعزازیہ نہ ملنےپر کیجریوال کے مکان کے باہر احتجاج کیا گیا اب بھلا اتنی بڑی تعداد کو کیجریوال کیسے اعزازیہ دیں گے یہ آگے چل کر پتہ چل جاۓ گا کیجریوال کا ایک اور چہرہ جس کو دہلی فسادات نے کھول کر رکھ دیا تھا جس میں ان کی خاموشی نے سب کچھ بیان کردیا تھا کہ یہ کس کی پیدا کردہ پارٹی ہے بس اس چھوٹے سے جملے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ بھاجپا اور عآپ کے صرف راستے الگ الگ ہیں لیکن منزل مقصود ایک ہی ہیں۔

 

 

انڈیا اتحاد کی ممتا دیدی نے کیجریوال کی تائید کا اعلان کیا ہے پھر سپا کے سربراہ اکھلیش یادو نے بھی عآپ کی تائید کا اعلان کیا ہے اس سے یہ بات صاف ہورہی ہے کہ دہلی میں آج بھی عآپ مضبوطی کے ساتھ کھڑی ہے اور شائد کانگریس اپنا کھویا ہوا مقام پانے کی صرف کوشش کرسکتی ہے دہلی میں کانگریس کا متبادل کیجریوال ہی ہے حالانکہ کیجریوال کی نرم ہندوتوا پالیسی بھی کسی سے کم نہیں لیکن عآپ کے بنیادی کام اور دہلی کی ترقی سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا اس کے علاوہ عآپ کے بڑے قائدین جن پر کرپشن شراب گھوٹالے کے الزامات لگاکر جیلوں میں ٹھونسا گیا انھیں عوام کی جانب سے ہمدردی کی شکل میں ذیادہ ووٹ ملنے کے امکانات ہیں لیکن اصل بات یہ ہے کہ اگر بھاجپا جارحانہ ہندوتوا کا رخ اختیار کرتے ہوۓ رام کے نام کی مالا جھپے گی تو کیجریوال بھی ہنومان چالیسہ کا پاٹ پڑھانے سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے لیکن کیجریوال کو چاہیئے کہ وہ نفرت کی سیاست کا جواب نفرت سے نہ دیں اور نرم ہندو توا کی سیاست سے باز آئیں بلکہ بنیادی کام اور ترقی کو سیاسی ایجنڈہ بنائیں ہندو مسلم و دیگر طبقات کو ساتھ لے کر دہلی کی ترقی کے لیئے کمر بستہ ہوجائیں سب کے حقوق کی بات کریں تب ہی کیجریوال ایک کامیاب سرکار چلاسکتے ہیں اور ان پر نرم ہندوتوا یا آر ایس ایس کے نظریات کا حامی ہونے کے جو الزامات وقفہ وقفہ سےعائد ہوتے ہیں وہ انھیں بھی دور کرنے کی کوشش کریں۔

 

 

دہلی میں کڑاکے کی اس سردی میں گرما گرم سیاست چل رہی ہے عآپ کے اعلی قائدین میدان سنبھالے ہوۓ ہیں جگہ جگہ کیجریوال کی تصاویر کے ہورڈنگ لگاۓ گئے ہیں جس پر لکھا ہوا ہے کہ دہلی کی عوام کو کیجریوال چاہیئے یا بد عنوانی میں ملوث پارٹی؟ عآپ کو سیاسی فائدہ ہونے کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے کہ عآپ کے پاس ایک زبردست چہرہ اروند کیجریوال کے روپ میں ہے جو بھاجپا کے پاس نہیں ہے ویسے دہلی والوں کا دل جیتنے کے لیئے 36 کے ہندسے کو عبور کرنا ہوگا جو عآپ کے لیئے مشکل نہیں ہے لیکن ان بیس دنوں میں بھاجپا ہوا کے رخ کو بدلنے کی بھر پور کوشش کرے گی یہ عآپ کے لیئے ایک بڑا چیلنج بن سکتا ہے اس نفرت انگیزی کا آغاز رمیش بھدوری نے کردیا ہے جس نے موجودہ وزیر اعلی کو دہلی میں ایک ریلی کے دوران کہا کہ آتشی نے باپ بدل لیا ہےپہلے وہ مارلینا تھیں اب سنگھ ہوگئی ہیں اس بیان نے نہ صرف سیاسی تنازعہ کو جنم دیا بلکہ یہ بھی دکھا دیا ہے کہ کس طرح بھدوری اپنی انتخابی سیاست کو ذاتی حملوں کے ذریعہ جارحانہ رخ پر لے جارہے ہیں اس سے ایک بات یہ بھی نکل کر آتی ہے کہ بھدوری شائد بھاجپا کی طرف سے وزیر اعلی کا چہرہ بننے کی تگ و دو میں ہی نچلی سطح کی زبان کا استعمال کررہے ہیں لیکن بھدوری کو یہ نہیں بھولنا ہوگا کہ یہ دل والوں کی دہلی ہے جو کھرے اور کھوٹے کا امتیاز کرنا بہت اچھے طریقے سے جانتی ہے اور وقت آنے پر یہ بھی بتادے گی کہ ان کے حق میں کون بہتر ہے۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *